ترکی اور روس شام کے شمالی حصے کا کنٹرول سنبھالنے پر متفق
23 اکتوبر 2019ترک صدر رجب طیب ایردوآن اور ان کے روسی ہم منصب ولادیمیر پوٹن کے درمیان گزشتہ روز روس کے سیاحتی مقام سوچی میں ایک ملاقات ہوئی جو چھ گھنٹوں تک جاری رہی۔ اس ملاقات کے بعد دونوں ممالک نے شام کے شمالی حصے کا کنٹرول اپنے پاس رکھنے کے حوالے سے اس معاہدے کا اعلان کیا۔ اس معاہدے کے تحت اس علاقے میں سیز فائر میں مزید ایک دن کی توسیع پر بھی اتفاق کیا گیا تاکہ ترک سرحد کے قریبی علاقوں سے کُرد ملیشیا کے جنگجو نکل سکیں۔ یہ مہلت منگل 22 اکتوبر کی شب ہی ختم ہو رہی تھی تاہم اس سے چند گھنٹے قبل ہی اس میں توسیع پر اتفاق ہوا۔
خیال رہے کہ گزشتہ ہفتے امریکا کی کوششوں سے ترکی اور کرد ملیشیا وائی پی جی کے درمیان جنگ بندی معاہدہ ہوا تھا جس کے تحت کرد ملیشیا کو شمالی شام کے ان علاقوں سے نکلنے کے لیے پانچ روز کی مہلت دی گئی تھی جہاں ترکی ایک محفوظ علاقہ قائم کرنا چاہتا ہے تاکہ وہاں ترکی میں موجود شامی مہاجرین کو لا کر بسایا جائے۔
اس کے علاوہ بھی ترکی وائی پی جی کو کالعدم تنظیم کردستان ورکرز پارٹی کا حصہ قرار دیتے ہوئے اسے دہشت گرد گروپ سمجھتا ہے اور وہ اپنی سرحد کے قریب اس گروپ کو طاقت پکڑتے ہوئے نہیں دیکھنا چاہتا۔
روسی صدر کے ساتھ ملاقات کے بعد ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے اس معاہدے کو 'تاریخی‘ قرار دیا جس کے سبب شام میں قیام امن کے لیے 'ایک نئے دور کا آغاز‘ ہو گا۔
اس معاہدے میں سیز فائر میں توسیع کا وقت آج بدھ 23 اکتوبر کی دوپہر سے شروع کرنے پر اتفاق ہوا جب روسی ملٹری پولیس اور شام سرحدی گارڈز اس علاقے میں داخل ہو جائیں گے اور وائی پی جی سے منسلک عناصر کو وہاں سے نکلنے میں مدد فراہم کریں گے۔
اس کے بعد ترک اور روسی فورسز مشترکہ طور پر اس علاقے میں گشت شروع کردیں گی۔ ترک صدر رجب طیب ایردوآن کے مطابق، ''23 اکتوبر کی دوپہر کے بعد سے 150 گھنٹوں کے اندر وائی پی جی کے دہشت گرد اور ان کے ہتھیاروں کو 32 کلومیٹر کے فاصلے سے باہر کر دیا جائے گا۔ اس گروپ کے محفوظ پناہ گاہوں اور پوزیشنوں کو تباہ کر دیا جائے گا۔‘‘
ا ب ا / ع ا (ڈی پی اے)