ولی عہد محمد بن سلمان اور ترک صدر ایردوآن کی ملاقات
23 جون 2022استنبول میں سعودی سفارت خانے میں سن 2018 میں صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے بعد ولی عہد محمد بن سلمان کا ترکی کا یہ پہلا دورہ تھا۔ انہوں نے ترک صدر رجب طیب ایردوآن کے ساتھ تقریباً دو گھنٹے تک بات چیت کی۔ دونوں رہنماوں کی بات چیت کے بعد جاری ایک مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے،"باہمی تعلقات بشمول سیاسی، اقتصادی، فوجی، سکیورٹی اور ثقافتی تعلقات میں تعاون کا ایک نیا دور شروع کرنے کے مستحکم عزم کا عہد کیا گیا۔"
جمال خاشقجی کی منگیتر خدیجے چنگیز نے ولی عہد محمد بن سلمان کے دورے پر نکتہ چینی کی ہے۔
بیان کے مطابق دونوں ملکوں نے تجارت کو فروغ دینے اور سرمایہ کاری میں اضافہ کرنے نیز مختلف شعبوں میں شراکت داری کے امکانات پر بھی تبادلہ خیال کیا۔ دونوں ملکوں نے کہا کہ اگلے دس برسوں کو تعاون کے ایک نئے دور کے طور پر لیا جائے گا۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ دونوں رہنماوں نے علاقائی اورعالمی مسائل کے حوالے سے اہم مسائل پر ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگی کے لیے دو طرفہ تبادلہ خیال کو فعال بنانے سے بھی اتفاق کیا تاکہ "خطے میں سلامتی اور استحکام کی حمایت کی جاسکے اور تمام مسائل کے سیاسی حل میں مدد مل سکے۔"
سعودی ولی عہد محمد بن سلمان اپنے سہ ملکی دورے کے آخری مرحلے پر بدھ کے روز ترکی پہنچے تھے۔ اس سے قبل وہ مصر اور اردن بھی گئے تھے۔ انقرہ پہنچنے پر ان کا شاندار روایتی استقبال کیا گیا۔ وہ اپنا دورہ مکمل کرکے وطن واپس لوٹ آئے ہیں۔ محمد بن سلمان نے ان تینوں ملکوں کا دورہ ایسے وقت کیا جب امریکی صدر جو بائیڈن اگلے ماہ سعودی عرب آنے والے ہیں۔
ترکی کی سعودی عرب سے تعلقات بحال کرنے کی کوشش
جمال خاشقجی کے قتل سے ترکی اور سعودی عرب کے تعلقات انتہائی کشیدہ ہوگئے تھے۔ امریکی خفیہ اداروں نے اس قتل کے لیے محمد بن سلمان کو مورد الزام ٹھہرایا تھا۔ ترکی کے ساتھ تعلقات خراب ہونے کے بعد سعودی عرب نے انقرہ کے لیے برآمدات پر غیرسرکاری طور پر پابندی لگا دی تھی جس سے دونوں ملکوں کے درمیان دو طرفہ تجارت میں تقریباً پانچ ارب ڈالر کی ڈرامائی کمی آ گئی تھی۔ سعودی عرب نے ترکی کے مقبول ڈراموں پر بھی پابندی لگا دی تھی۔
ترکی اور سعودی عرب کے تعلقات میں کشیدگی تقریباً دس برس قبل اس وقت شروع ہوئی تھی جب مصر میں عبدالفتح السیسی سن 2013 میں اخوان المسلمون کے رہنما محمد مرسی کی حکومت کو برطرف کرکے خود صدر بن گئے تھے۔ ترکی نے عبد الفتح السیسی کواس وقت صدر تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
رجب طیب ایردوآن نے سعودی عرب سے اپنے تعلقات کو ایک بار پھر بحال کرنے کا فیصلہ کیا ہے کیوں کہ اس وقت ترکی کو شدید اقتصادی مسائل کا سامناہے جبکہ اس کی تجارت میں سعودی عرب کا ایک بڑا حصہ ہے۔ایردوآن نے رواں برس اپریل کے اواخر میں سعودی عرب کا دورہ بھی کیا تھا۔ اس دوران ولی عہد محمد بن سلمان کے ساتھ ان کے معانقے کی تصویر وائرل ہوگئی تھی۔
ترکی نے متحدہ عرب امارات، مصر اور اسرائیل کے ساتھ بھی اپنے تعلقات کو بہتر کرنے کے لیے متعدد اقدامات کیے ہیں۔
محمد بن سلمان نے یہ دورے کیوں کیے؟
یوریشیا گروپ کی مشرق وسطیٰ ریسرچ ٹیم کے سربراہ ایہم کامل کا کہنا ہے کہ بائیڈن کے سعودی عرب کے دورے سے قبل ولی عہد کا تین ملکوں کایہ دورہ ریاض کے"علاقائی کردار کو مستحکم کرنے اور مفاہمت کی کوششوں کو توسیع کرنے" کا حصہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس سے مصر اور ترکی کے درمیان ثالثی کرنے میں بھی مدد ملے گی جو سابق صدر مرسی کی معزولی کے بعد سے تعلقات میں پیدا ہونے والی کشیدگی کو دور کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔
خاشقجی کی منگیتر نے کیا کہا؟
خاشقجی کی منگیتر خدیجے چنگیز نے سعودی عرب اور ترکی کے درمیان تعلقات کی بہتری کا خیر مقدم کیا تاہم انہوں نے خاشقجی کے قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچانے سے قبل انقرہ میں ولی عہد محمد بن سلمان کا استقبال کرنے کی مخالفت کی۔ انہوں نے کہا،"ایک ایسا شخص، جو قصور وار ہے، کے استقبال سے مجھے دلی تکلیف پہنچی ہے۔ میں اس کی مخالفت کرتی ہوں۔ جمال کی لاش اب تک نہیں ملی ہے اور نہ ہی قصورواروں کواب تک کوئی سزا مل سکی ہے۔"
ترکی نے خاشقجی کے قتل میں ملوث مبینہ 26 افراد کے خلاف ان کی غیر حاضری میں مقدمہ شروع کیا تھا تاہم اس سال کے اوائل میں عدالت نے اس پر روک لگاتے ہوئے کیس کو سعودی عرب منتقل کرنے کا فیصلہ سنایا تھا۔
خدیجے چنگیز نے صدر بائیڈن کے سعودی عر ب کے مجوزہ دورے پر بھی نکتہ چینی کی۔ انہوں نے کہا،"اپنے تمام وعدوں کو بھلا کر وہ صرف اپنے ملک کے مفاد میں قدم اٹھارہے ہیں۔ وہ ان قدروں کی بھی خلاف ورزی کررہے ہیں جن پر ان کا یقین ہے۔ اس دورے سے پوری دنیا ان کے اخلاص پر سوال اٹھا رہی ہے۔"
ج ا / ص ز (اے پی، اے ایف پی، روئٹرز)