ترکی اور یونان کے وزرائے خارجہ میں تلخ کلامی
16 اپریل 2021ترکی اور یونان کے وزرا ئے خارجہ کے درمیان جمعرات 15 اپریل کو ایک مشترکہ پریس کانفرنس بڑے خوشگوار ماحول میں شروع ہوئی تاہم بڑی تیزی سے ماحول خراب ہو گیا اور کانفرنس ایک دوسرے پر الزام تراشی میں تبدیل ہو گئی۔
ترکی کے وزیر خارجہ مولود اوغلو اور ان کے یونانی ہم منصب نکوس دیندیاس نے دونوں ملکوں کے درمیان حالیہ کئی مہینوں سے جاری کشیدگی کے خاتمے اور تعلقات کی بہتری کے لیے انقرہ میں ملاقات کی تھی۔ دونوں ملکوں میں مشرقی بحیرہ روم کے پانیوں میں سرحدی تنازعے اور اس حوالے سے گزشتہ برس فوجی ٹکراؤ جیسے مسائل پر بات چیت ہونی طے تھی۔
اس حوالے سے مشترکہ پریس کانفرنس کا آغاز تو بڑے خوشگوار ماحول میں ہوا تاہم کانفرنس کے دوران ہی جب یونان کے وزیر خارجہ دیندیاس نے ترکی پر یہ کہہ کر تنقیدشروع کر دی کی کہ یونان کی خود مختاری کی خلاف ورزی کے بدلے میں پابندیاں عائد کی جائیں گی، تو دونوں رہنما آپس میں لڑ پڑے۔
یونان کے وزیر خارجہ نے کہا کہ ترکی کی فضائیہ نے کئی بار یونانی فضائی حدود کی خلاف ورزی کی ہے اور متنبہ کیا کہ ترکی کو ''جعلی خبریں '' پھیلانے سے باز رہنا چاہیے۔ اس موقع پر ترکی کے وزیر خارجہ نے ان الزامات کو مسترد کرتے کہا کہ یہ قطعی طور پر نا قابل قبول ہے اور یونانی وزیر خارجہ اپنے گھریلو مقاصد کے لیے اس میٹنگ کا استحصال کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا، ''آپ یہاں آ کر اپنے ملک کو پیغام دینے کے لیے ترکی کو مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں۔ میرے لیے اس بات کو تسلیم کرنا قطعی نا ممکن ہے۔''
ترکی اور یونان دونوں ہی نیٹو کے رکن ہیں تاہم مشرقی بحیرہ روم کے پانیوں میں توانائی کے ذخائر کی دریافت کے حوالے سے دونوں میں اختلافات پائے جاتے ہیں اور دونوں ہی اس علاقے پر اپنا دعوی کرتے ہیں۔ دونوں میں اس تنازعے کی وجہ سے کافی کشیدگی رہی ہے اور گزشتہ پانچ برس میں پہلی بار دونوں نے جنوری میں پہلی ملاقات کی تھی۔
اس ملاقات سے پہلے ترک وزیر خارجہ نے سرکاری ٹی وی سے بات چیت میں کہا تھا کہ یونان کے سات تمام تصفیہ طلب امور پر بات چیت ہو گی۔ یہ میٹنگ بدھ کے روز ہونی تھی تاہم افغانستان سے انخلاء کے حوالے سے نیٹو کی ہنگامی میٹنگ کی وجہ سے اسے ایک دن کے لیے موخر کر دیا گیا تھا۔
یونان کو یورپی یونین کی حمایت
گزشتہ برس موسم گرما میں جب مشرقی بحیرہ روم میں گیس کے ذخائر کی تلاش کے حوالے سے دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی بڑھی تو یورپی یونین نے اس معاملے میں یونان کی حمایت کی تھی۔
جب یورپی یونین نے اس حوالے سے ترکی پر پابندیاں عائد کرنے کی دھمکی دی تو ترکی نے اپنا مشن بھی روک دیا تھا۔ یورپی یونین کے بعض رکن ممالک نے یونان کے حمایت میں اپنے جہاز بھی اس علاقے میں روانہ کر دیے تھے۔
بعد میں یورپی یونین نے پابندیاں نافذ کرنے کے بجائے یہ کہہ کر ترکی کو اپنے بازار تک مزید رسائی دینے کی پیشکش کی تھی کہ وہ کشیدگی کو کم کرنے کے اقدامات کرے۔ گزشتہ ہفتے یورپی کمیشن کی صدر ارزولا فان ڈیئر لائن اور یورپی کونسل کے صدر چررلس مشیل نے ترکی کے ساتھ بہتر تعلقات قائم کرنے کے لیے انقرہ کا دورہ بھی کیا تھا۔
ص ز/ ج ا (اے ایف پی، اے پی، ڈی پی اے، روئٹرز)