ترکی: بلدیاتی انتخابات میں اپوزیشن جماعت کی بڑی کامیابی
1 اپریل 2024ترکی کی اہم اپوزیشن جماعت ریپبلکن پیپلز پارٹی (سی ایچ پی) نے استنبول اور انقرہ جیسے اہم شہروں میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں بڑی کامیابیوں کا دعویٰ کیا ہے۔
ترک صدر اپنے ’آخری انتخابات‘ کے لیے تیار
استنبول کے میئر اور حزب اختلاف کے رہنما اکرام امام اوغلو کا دعوی ہے کہ ترکی کے سب سے بڑے شہر میں تقریباً ووٹوں کی گنتی اب مکمل ہو چکی ہے، جس کے مطابق ان کی جماعت کامیاب رہی ہے۔
ترکی بلدیاتی انتخابات کی طرف بڑھ رہا ہے: کیا ایردوآن 2019ء کی شکست کا بدلہ لینا چاہتے ہیں؟
اپوزیشن جماعت سی ایچ پی نے دارالحکومت انقرہ اور ترکی کے تیسرے بڑے شہر ازمیر کے ساتھ ہی جنوبی شہر انطالیہ میں بھی فتح کا دعویٰ کیا ہے۔ ابھی سرکاری سطح پر نتائج کی حتمی تصدیق نہیں ہوئی ہے، تاہم سرکاری میڈیا کے مطابق اپوزیشن نے بڑی کامیابی حاصل کر لی ہے۔
دو دہائیاں بعد ایردوآن کا اقتدار چھوڑنے کا عندیہ
سرکاری خبر رساں ایجنسی انادولو نے ابتدائی نتائج سے متعلق جو خبریں شائع کی ہیں، اس کے مطابق حزب اختلاف کی جماعت سی ایچ پی نے 81 شہروں میں ہونے والے میئر کے انتخابات میں سب سے زیادہ نشستیں حاصل کی ہیں۔
ترکی میں خواتین کے خلاف تشدد کی روک تھام میں ناکامی کیوں؟
صدر رجب طیب ایردوآن کی حکمراں جماعت 'جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی' (اے کے پی) کے لیے ان نتائج کو بڑا سیاسی دھچکا قرار دیا جا رہا ہے۔
ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کا متوقع دورہ ترکی
استنبول کے موجودہ میئر اکرام امام اوغلو نے اتوار کی رات کو سوشل میڈیا ایکس پر اپنے حامیوں سے کہا کہ ''آج کی رات، استنبول کے 16 ملین شہریوں نے ہمارے حریفوں اور صدر دونوں کے لیے یہ پیغام بھیجا ہے۔ استنبول آپ کا شکریہ۔''
عراق اور شام میں ’دہشت گردوں کے ٹھکانوں‘ پر ترک فضائی حملے
اتوار کے روز ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں لاکھوں ترکوں نے میئرز اور ایڈمنسٹریٹرز کے انتخاب کے لیے اپنے ووٹ ڈالے۔ چونکہ ملک کے صدر رجب طیب ایردوآن کی حکمراں جماعت تمام اہم شہروں میں جیتنے کی کوشش کر رہی تھی، اس لیے اس انتخابات میں صدر کی جماعت کی گھٹتی مقبولیت کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔
ترک صدر کے لیے اصل میدانِ جنگ استنبول تھا، جہاں وہ پیدا ہوئے اور پرورش پائی۔ اسی شہر میں انہوں نے سن 1994 میں بطور میئر منتخب ہونے کے بعد اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز کیا تھا۔
نتائج سے اپوزیشن کے حوصلے بلند
سی ایچ پی کے رہنما امام اغلو نے استنبول میں پارٹی کے ہیڈ کوارٹر میں صحافیوں کو بتایا کہ ''ہم دس لاکھ سے زیادہ ووٹوں کی برتری کے ساتھ پہلی پوزیشن پر ہیں۔۔۔۔ ہم نے الیکشن جیت لیا ہے۔''
انادولو ایجنسی کے مطابق اے کے پی کے امیدوار مراد خرم تقریباً 40 فیصد ہی ووٹ حاصل کیے۔
دارالحکومت انقرہ کے میئر منصور یاواس نے بھی اپنے اے کے پی کے حریف امیدوار کے مقابلے میں 25 پوائنٹس کے فرق کے ساتھ اپنی نشست برقرار رکھی ہے۔ سی ایچ پی کو ترکی کے تیسرے سب سے بڑے شہر ازمیر میں بھی سبقت حاصل تھی۔
سرکاری نشریاتی ادارے ٹی آر ٹی کے مطابق سی ایچ پی کے امیدواروں کے ملک کے متعدد صوبوں میں بھی سبقت حاصل ہے۔ مجموعی طور پر حزب اختلاف کو جو ووٹ حاصل ہوا ہے، اس کے مطابق اسے صدر ایردوآن کی حکمراں جماعت کے مقابلے میں قومی سطح پر ایک فیصد سے بھی زیادہ کی برتری حاصل ہے۔
'خود احتسابی' کی ضرورت ہے، ایردوآن
انقرہ میں اپنی پارٹی کے ہیڈکوارٹر میں حامیوں سے بات کرتے ہوئے ترک صدر رجب میب ایردوآن نے اعتراف کیا کہ یہ نتیجہ ان کی اے کے پی کے لیے ایک دھچکا ہے۔
ان کا کہنا تھا، ''بدقسمتی سے ہم بلدیاتی انتخابی امتحان میں وہ نتیجہ حاصل کرنے میں ناکام رہے، جس کی ہم نے خواہش اور امید کی تھی۔''
ستر سالہ ایردوآن نے مزید کہا، ''ہم ایمانداری سے انتخابات کے نتائج کا جائزہ لیں گے۔۔۔۔۔ اور ہمت سے خود کا محاسبہ کرنے کا مظاہرہ کریں گے۔''
ان انتخابات میں تقریباً 61 ملین افراد، جن میں سے ایک ملین سے زیادہ پہلی بار ووٹ دینے والے شامل ہیں، تمام میٹروپولیٹن میونسپلٹیز، ٹاؤن اور ڈسٹرکٹ میئر شپ کے ساتھ ساتھ محلے کی انتظامیہ کے لیے ووٹ ڈالنے کے اہل تھے۔
خبر رساں ادارے انادولو کے مطابق تقریباً 76 فیصد افراد نے ان بلدیاتی انتخابات میں اپنی رائے دہی کا استعمال کیا۔
سن 2019 کے طرز پر ووٹ کا اعادہ
سن 2019 کے بھی بلدیاتی انتخابات میں استنبول اور انقرہ میں حزب اختلاف کی جماعت سی ایچ پی نے کامیابی حاصل کی تھی اور اس بار بھی تقریبا اسی طرح کے نتائج سامنے آئے ہیں۔
اس ماہ کے اوائل میں ہی صدر ایردوآن نے کہا تھا کہ یہ میونسپل انتخابات ان کے آخری ہوں گے۔ وہ سن 2003 سے اقتدار میں ہیں، جب پہلی بار سن 2014 میں وہ پہلے وزیر اعظم اور پھر صدر کے عہدے کے لیے منتخب ہوئے تھے۔
سن 2017 میں آئینی ترمیم کے بعد وزارت عظمی کا عہدہ ختم کر دیا گیا تھا، جس سے ملک کے انتظامی اختیارات مکمل طور پر صدر کے پاس آ گئے۔
گزشتہ برس مئی میں ایردوآن صدارتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں ووٹوں کی اکثریت سے محروم ہو گئے تھے، پھر رن آف میں کامیاب ہوئے جبکہ سن 2014 اور 2018 میں انہیں واضح کامیابی ملی تھی، اور رن آف کی ضرورت نہیں پڑی تھی۔
ص ز/ ج ا (اے ایف پی، روئٹرز)