ترکی: جمہوریت کے حق میں حکومتی اور اپوزیشن جماعتوں کی ریلی
24 جولائی 2016اس بغاوت کے دوران کم از کم دو سو چھیالیس افراد ہلاک اور دو ہزار سے زیادہ زخمی ہوئے۔ نیوز ایجنسی روئٹرز کے مطابق عموماً حکومت کے حامی دھڑے اور اپوزیشن جماعتیں ایک دوسرے کے سخت خلاف ہیں لیکن ناکام فوجی بغاوت کے بعد اب یہ دونوں فریق ہر طرح کی جماعتی وابستگی سے بالاتر ہو کر استنبول کے تقسیم چوک میں اس بڑی ریلی کا اہتمام کر رہے ہیں۔ اس ریلی کے شرکاء یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ وہ سب جمہوریت کی بساط لپیٹنے کے لیے کی جانے والی ہر طرح کی کوششوں کے جواب میں متحد ہیں۔
ریلی منظم کرنے والی سیکولر اپوزیشن جماعت CHP کے نائب سربراہ انجین الطے نے کہا، ’ناکام بغاوت نے ایک بار پھر واضح کیا ہے کہ جمہوریت اور ہر طرح کی آزادیاں کتنی قیمتی ہیں‘۔ اُنہوں نے کہا کہ اتوار کی شام کی ریلی میں اُن کی جماعت کے تمام 133 اراکینِ پارلیمان بھی شریک ہوں گے۔ حکمران جماعت AKP کی طرح اپوزیشن CHP نے بھی اس تناظر میں فوجی بغاوت کی حالیہ کوشش کی فوری طور پر مذمت کی تھی کہ گزشتہ ساٹھ برسوں میں ترکی میں چار بار فوجی مداخلت ہو چکی ہے۔ آخری بار ایسا 1980ء میں ہوا تھا، جب سیاست دانوں اور دیگر شعبوں سے تعلق رکھنےوالے افراد کی ایک بہت بڑی تعداد کو گرفتاریوں، جبر و تشدد اور موت کی سزاؤں کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
مسلح افواج کے ایک حصے کی طرف سے ہونے والی ناکام بغاوت کے پس منظر میں ترکی کی فضائی افواج کے سربراہ نے ایک غیر معمولی بیان جاری کرتے ہوئے ملٹری جنرل سٹاف کی ’مکمل فرماں برداری‘ پر زور دیا ہے۔
دوسری طرف چیف آف ملٹری جنرل سٹاف خلوصی اکار نے، جنہیں پندرہ جولائی کی رات باغیوں نے یرغمال بنا لیا تھا، اتوار کو باغیوں کو ’وردی میں ملبوس بُزدل‘ قرار دیا، جنہوں نے فوج اور قوم کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔
صدر ایردوآن کے ناقدین اس بغاوت کے بعد ہنگامی حالت کے نفاذ کو مخالفین کے خلاف بلا امتیاز کریک ڈاؤن کی ایک کوشش قرار دے رہے ہیں۔ ساٹھ ہزار سے زیادہ افراد کو، جن میں فوج اور پولیس کے اہلکاروں کے ساتھ ساتھ جج، اساتذہ اور سرکاری افسران بھی شامل ہیں، معطل یا گرفتار کیا جا چکا ہے یا اُن کے خلاف تحقیقات ہو رہی ہیں۔
وزیر اعظم بن علی یلدرم نے وعدہ کیا ہے کہ بغاوت میں ملوث ہونے کے الزام میں گرفتار تقریباً تیرہ ہزار افراد کو، جن میں تقریباً نو ہزار فوجی بھی شامل ہیں، منصفانہ عدالتی کارروائی کی سہولت دی جائے گی۔