ترکی شنگھائی تعاون تنظیم کا پارٹنر بن گیا
27 اپریل 2013اس معاہدے کے تحت ترکی شنگھائی تعاون تنطیم کا ’ڈائیلاگ پارٹنر‘ بن گیا ہے۔ جمعے کو قزاقستان کے تجارتی دارالحکومت آلماتی میں شنگھائی تعاون تنظیم کے سیکرٹری جنرل ديمتری ميزنتسيف کے ساتھ سمجھوتے کی ایک یاداشت پر دستخط کے بعد ترکی کے وزیر خارجہ احمد داود اوغلو نے کہا: ’’ہمارے لیے یہ حقیقی طور پر ایک تاریخی دِن ہے۔‘‘
ان کا کہنا تھا: ’’اب، اس انتخاب کے بعد، ترکی یہ اعلان کر رہا ہے کہ ہماری منزل وہی ہے جو شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے ملکوں کی ہے۔‘‘
ایس سی او کے دیگر ارکان کرغزستان، قزاقستان اور ازبکستان میں التائی زبانیں بولی جاتی ہیں۔ اس تناظر میں اوغلو نے مشترکہ تاریخی ورثے پر بھی زور دیا ہے۔ انہوں نے کہا: ’’ترکی ایک خاندان کا حصہ ہو گا، جو ان ملکوں پر مشتمل ہے، جو صدیوں سے نہیں بلکہ ہزارہا سال تک ایک ساتھ رہے۔
انہوں نے ایس سی او کے ساتھ اقتصادی تعاون اور دہشت گردی کے خطرے اور منشیات کی تجارت کے خلاف مشترکہ کوششوں کا عزم ظاہر کیا۔
ترکی مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کا بھی رکن ہے جبکہ بعض تجزیہ کار روس اور چین کی سربراہی میں قائم سکیورٹی بلاک شنگھائی تعاون تنظیم کو نیٹو کے مقابل قرار دیتے ہیں۔
اس کے ساتھ ہی ترکی یورپی یونین کی رکنیت کا بھی خواہاں ہے۔ انقرہ حکومت نے شنگھائی تعاون تنظیم کے ساتھ ایسے وقت قریبی تعاون کا قدم اٹھایا ہے جب یہ یورپی یونین کی رکنیت کے حوالے سے سست پیش رفت پر ’نالاں‘ ہے۔
یورپی یونین کی رکنیت کے لیے ترکی نے مذاکرات 2005ء میں شروع کیے تھے اور ابھی تک اس کے 35 پالیسی ’ابواب‘ میں سے ایک کو ہی مکمل کر پایا ہے۔ ترک وزیر اعظم رجب طیب ایردوآن اس یونین میں شمولیت کے انتظار کو ’ناقابلِ معافی‘ قرار دے چکے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی وہ الزام لگا چکے ہیں کہ برسلز صاف اور سچا مذاکراتی ساتھی نہیں ہے۔
چین اور روس کے ساتھ اس تنظیم کے دیگر ارکان میں وسطی ایشیائی ممالک قزاقستان، کرغزستان، تاجکستان اور ازبکستان شامل ہے۔ علاقائی سکیورٹی بلاک کے طور پر شدت پسند اسلام کے خطرے اور افغانستان سے منشیات کی اسمگلنگ پر قابو پانے کے لیے اس تنظیم کی بنیاد 2001ء میں رکھی گئی تھی۔
ng/zb (Reuters)