ترکی: صحافیوں کے خلاف اقدامات
27 جولائی 2016ذرائع نے بتایا کہ ترکی میں ناکام بغاوت کے بعد روزنامے ’زمان‘ کے سینتالیس سابقہ ملازمین کے وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے گئے ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ ان ملازمین میں اخبار کے سینیئر ارکان کے ساتھ ساتھ چند ایک کالم نگار بھی شامل ہیں۔ ان کالم نگاروں میں شاہین الپے بھی شامل ہے، جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کے گولن تحریک کے ساتھ قریبی روابط ہیں۔
واضح رہے کہ اخبار ’زمان‘ بھی امام اور مبلغ فتح اللہ گولن کی اُسی’حزمت تحریک‘ کے ساتھ وابستگی رکھتا ہے، جسے انقرہ حکومت ناکام بغاوت کے لیے قصور وار قرار دے رہی ہے۔ ترکی میں پندرہ جولائی کی ناکام بغاوت کے بعد سے اب تک تیرہ ہزار سے زائد افراد کو حراست میں لیا جا چکا ہے۔ اس دوران270 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
امریکی ریاست پینسلوینیا میں رہائش پذیر فتح اللہ گولن انقرہ حکومت کے الزامات کو مسترد کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ترک حکومت امریکا سے ان کی حوالگی کا مطالبہ کر رہی ہے اور اس طرح ترک صدر امریکا کو بلیک میل کر رہے ہیں، ’’امریکا کو حوالگی کے مطالبے کو مسترد کر دینا چاہیے‘‘۔ وہ پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ ہو سکتا ہے کہ بغاوت کی یہ سازش خود ایردوآن کی تیار کردہ ہو۔
مارچ میں زمان اور اس کے انگریزی اخبار ٹوڈے زمان کے خلاف حکومت نے سخت کارروائی کرتے ہوئے سرکاری اہلکاروں کو اس کی نگرانی کی ذمہ داری سونپی تھی۔ اس کے بعد سے اس اخبار کا موقف تبدیل ہو گیا تھا اور اس کا شمار حکومت نواز اخباروں میں ہونے لگا تھا۔ حکومتی ذرائع نے بتایا کہ ان وارنٹ کا تعلق ماضی کی تحریروں سے نہیں ہے بلکہ زمان کے کچھ اہم ملازمین کے گولن تحریک سے قریبی روابط ہیں اور یہ لوگ تفتیشی عمل میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے انقرہ حکومت کی جانب سے صحافیوں اور نشریاتی اداروں کے خلاف کارروائی کو آزادی اظہار پر کاری ضرب سے تعبیر کیا ہے۔