1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ترکی: مظاہروں میں خواتین آگے آگے

10 جون 2013

ترکی کے شہر استنبول کے ایک سرسبز پارک کو بچانے کے لیے جن مظاہرین نے اس پارک کے اندر گزشتہ کئی روز سے خیمے لگا رکھے ہیں، اُن میں شہروں کی نوجوان پڑھی لکھی خواتین بھی شامل ہیں۔

https://p.dw.com/p/18mnD
تصویر: Aris Messinis/AFP/Getty Images

انہی خواتین میں 37 سالہ اداکارہ سیوی الگان بھی شامل ہیں، جنہوں نے ترک وزیر اعظم رجب طیب ایردوآن کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ’وہ ہم جیسی خواتین کو گھروں تک ہی محدود رکھنا چاہتے ہیں‘۔ ان مظاہرین کا موقف یہ ہے کہ ایردوآن اس مسلم اکثریتی لیکن کٹر سیکولر قوم پر اپنے قدامت پسندانہ نظریات اور اسلامی اَقدار مسلط کرنا چاہتے ہیں۔

ان میں سے بہت سی خواتین بخوشی یہ اعتراف کرتی ہیں کہ وہ محض حادثاتی طور پر اپوزیشن کارکن بنی ہیں، جنہوں نے دو ہفتے پہلے تک یہ سوچا بھی نہیں ہو گا کہ وہ ایک ملک گیر شہری تحریک کے گڑھ میں خیمہ لگا کر بیٹھی ہوں گی۔

تاہم اس وقت صورت حال یہ ہے کہ گیزی پارک اور نواحی تقسیم اسکوائر میں جمع ہزارہا مظاہرین کی نصف تعداد انہی نوجوان خواتین پر مشتمل ہے، جن میں طالبات بھی ہیں، وکلاء بھی، استانیاں بھی اور آفس ورکرز بھی۔

ترک وزیر اعظم رجب طیب ایردوآن ہر قیمت پر اس پارک کی جگہ پر تعمیراتی منصوبے کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں
ترک وزیر اعظم رجب طیب ایردوآن ہر قیمت پر اس پارک کی جگہ پر تعمیراتی منصوبے کو آگے بڑھانا چاہتے ہیںتصویر: imago/Xinhua

یہ خواتین گیزی پارک کے اونچے درختوں کے نیچے بیٹھ کر گھنٹوں اپنے موقف کے حق میں بحث مباحثہ کرتی ہیں، رات کے وقت رقص و موسیقی کی محافل میں شرکت کرتی ہیں اور جہاں بھی ضرورت محسوس ہو، فٹ بال کے شائقین کے شانہ بشانہ کھڑے ہو کر پولیس کا بھی سامنا کرتی ہیں۔

یہ سارا احتجاج اُس وقت شروع ہوا، جب پارک کے 600 درختوں کو کٹائی سے بچانے کے لیے ایک چھوٹی سی تحریک شروع کی گئی۔ پولیس نے 31 مئی کو اس تحریک کو کچلنے کے لیے آنسو گیس اور تیز دھار پانی استعمال کیا۔ پولیس کی اس کارروائی کے نتیجے میں حکومت مخالف مظاہروں کا دائرہ پھیلنا شروع ہو گیا۔ اب تک ملک گیر مظاہروں کے نتیجے میں تین افراد ہلاک اور چار ہزار سے زیادہ زخمی ہو چکے ہیں۔

ان خواتین کی بڑی تعداد خود کو آزاد خیال اور سیکولر خیال کرتی ہیں۔ اُن کا موقف یہ ہے کہ ایردوآن کی اسلامی جڑوں کی حامل جسٹس اینڈ فریڈم پارٹی (AKP) اُن کی آزادیوں پر قدغنیں لگا رہی ہے اور وقت آ گیا ہے کہ خواتین اپنے حقوق کے لیے اٹھ کھڑی ہوں۔

ایردوآن نے مسلسل تین انتخابات جیتے ہیں۔ 2011ء کے انتخابات میں تقریباً پچاس فیصد ووٹ حاصل کرنے کے بعد اُنہوں نے مسلسل ایسی پالیسیاں اختیار کی ہیں، جن کے نتیجے میں ترکی اقتصادی ترقی کے راستے پر گامزن ہوا ہے۔ تاہم اُن کے ناقدین الزام عائد کرتے ہیں کہ اُن کے ہاں آمرانہ رجحانات بڑھتے جا رہے ہیں اور وہ ملک کو دو مختلف انتہاؤں کی جانب دھکیل رہے ہیں۔

اس پارک میں آج کل میلے کا سماں ہے اور وہاں خیمے لگا کر پڑے ہوئے مظاہرین وقت گزاری کے لیے کبھی رقص و موسیقی کی محافل سجاتے ہیں اور کبھی یوگا کی مشقیں کرتے ہیں
اس پارک میں آج کل میلے کا سماں ہے اور وہاں خیمے لگا کر پڑے ہوئے مظاہرین وقت گزاری کے لیے کبھی رقص و موسیقی کی محافل سجاتے ہیں اور کبھی یوگا کی مشقیں کرتے ہیںتصویر: picture-alliance/dpa

مظاہروں میں شریک آزاد خیال نوجوان خواتین کو ایردوآن سے جو شکایات ہیں، اُن میں اُن کی یہ تجاویز بھی شامل ہیں کہ اسقاط حمل کے حقوق کو محدود کر دیا جائے، مانع حمل گولیوں کی فراہمی کے ضوابط سخت تر بنائے جائیں اور رات کو دیر گئے تک شراب کی فروخت پر پابندی عائد کی جائے۔

ایردوآن اسلام کے قواعدو ضوابط کی سختی سے پاسداری کرنے والے مسلمان ہیں، جن کی اہلیہ اور بیٹیاں سر پر اسکارف لیتی ہیں۔ ایردوآن کا یہ بیان بھی تنقید کی زَد میں آیا ہے کہ ترکی میں ہر خاتون کے ہاں تین بچے ہونے چاہییں۔

اداکارہ سیوی الگان کے مطابق حکمران اے کے پی کے حامی ان مظاہرین کو ’برے مسلمان‘ سمجھتے ہیں لیکن یہ کہ ایردوآن اور اُن کے حامیوں کی اسلام پر کوئی اجارہ داری نہیں ہونی چاہیے۔

ترکی میں سیاسی شعبے میں خواتین کی نمائندگی اگرچہ کم ہے لیکن بابائے قوم مصطفیٰ کمال اتا ترک کی متعارف کروائی ہوئی پالیسیوں کی وجہ سے یونیورسٹیوں اور کمپنیوں میں خواتین کافی زیادہ تعداد میں کام کرتی ہیں۔

(aa/km(afp