ترکی ميں ريفرينڈم، ايردوآن کی اسلامی پارٹی کی فتح؟
13 ستمبر 2010جمہوری اصولوں کے اعتبار سے ترکی ميں آئينی تراميم پر ہونے والا ريفرينڈم بالکل صحيح اور صاف ستھرا تھا۔ ريفرينڈم ميں ووٹ دينے والوں ميں سے 58 فیصد نے آئين کی 26 دفعات ميں تراميم اور اس طرح وزير اعظم رجب طيب ایردوآن کی قدامت پسند اسلامی پارٹی کی ايک ديرينہ خواہش کی حمايت کی ہے۔ اس طرح فوج کے بغاوت کرنے والے عناصر نے 1982ميں ريفرينڈم ہی کے ذريعے ايک غالب اکثريت کے ساتھ جو آئين منظور کرايا تھا، اُس کے بہت سے حصے اب لاگو نہيں رہیں گے۔ ترک وزيراعظم ایردوآن نے اسے جمہوری اصلاحات کے لئے ايک اہم قدم قرار ديا ہے اور جرمنی اور يورپی يونين کی طرف سے اس پر ترکی کو مبارکباد کے پيغامات بھيجے گئے ہيں۔ حقيقت بھی يہی ہے کہ 1960 سے لے کر اب تک چار مرتبہ براہ راست يا بالواسطہ طور پر سیاسی مداخلت کرنے والی فوج کے اختيارات ميں کمی اور رياست کے روبرو شہريوں کے حقوق ميں اضافے کی ان آئينی تراميم کو خوش آئند ہی کہا جا سکتا ہے۔ اس طرح اب فوج سول حکومت کے سامنے جوابدہ ہوگئی ہے۔
اس کے باوجود اپوزيشن اور عوام ميں اُس کے حاميوں کے انديشوں کو اتنی آسانی سے رد نہيں کيا جا سکتا۔ ان حلقوں کی طرف سے آئينی عدالت اور قانون کے اعلیٰ اداروں کی غير جانبداری کے خطرے ميں پڑ جانے کے انديشے ظاہر کئے جارہے ہيں۔ ان انديشوں کی بنياد يہ بتائی جا رہی ہے کہ آئينی عدالت کے ججوں اور ججوں اور وکلائے استغاثہ کے بورڈ کے اراکين ميں اضافہ کيا جا رہا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ججوں کی تقرری کے سلسلے ميں پارليمنٹ کے اثر اور اختيار ميں اضافہ ہورہا ہے، جس کے نتيجے ميں اس ميدان ميں وزير اعظم ایردوآن کی قدامت پسند مذہبی پارٹی کا اثر و رسوخ بھی بڑھے گا۔
ترکی کی داخلی سياست ميں مذہبی عناصر کے اثر ميں اضافے کے نتائج اُس کی خارجہ سياست پر بھی پڑ رہے ہيں۔ گذشتہ برسوں کے دوران ترکی ايک اہم علاقائی ساتھی کی حيثيت سے اسرائيل سے مسلسل دور ہٹتا رہا ہے اور دوسری جانب وہ ايران اور دوسرے اسلامی ممالک سے قريب تر ہوتا گيا ہے۔ ترکی کے سابق وزير اعظم اربکان نے، جو ایردوآن کے سياسی استاد ہيں، يہ کہا تھا کہ جمہوريت کوئی ہدف نہيں بلکہ يہ سياسی مقاصد کو حاصل کرنے کا صرف ايک ذريعہ ہے۔ زيادہ واضح الفاظ ميں اس کا مطلب ترکی کی اسلامی اقدار کا احياء اور کمال اتا ترک کے رائج کردہ لادين آئين کا خاتمہ ہے۔ يوں حاليہ آئينی تراميم کے نتيجے ميں رياست اور مذہب کو سختی سے عليحدہ رکھنے کے نظريے کے مزيد کمزورہو جانے کا انديشہ ہے۔ اب سوال يہ ہے کہ کيا رياستی سطح پر ترکی کا اسلامی تشخص مضبوط ہو گا يا يہ کہ اس کے مخالفين مغربی اقدار پر قائم ترک رياست کو برقرار رکھنے کی کوئی راہ نکالنے ميں کامياب ہو جائيں گے۔
يہ بات طے ہے کہ ترکی کے اسلام سے قريب تر آ جانے سے يورپی يونين ميں اس کے داخلے کا راستہ بند ہو جائے گا کيونکہ يورپی يونين ايک اسلامی ملک کو اپنا رکن نہيں بنائے گی۔
تبصرہ: شہاب احمد صديقی/ باہا گيونگور
ادارت: مقبول ملک