ترکی ميں مبينہ مظالم کے شکار افراد کو جرمنی پناہ دے گا
8 نومبر 2016جرمنی کے سیکریٹری خارجہ میشائل روتھ نے قدامت پسند جرمن روزنامے ‘دی ویلٹ‘ سے بات کرتے ہوئے کہا،’’جرمنی ایک وسیع النظر ملک ہے اور بنیادی طور پر اِس کے دروازے ہر اُس شخص کے لیے کھلے ہیں جسے سیاسی انتقام کا سامنا ہے۔ ترکی میں حکومت کے تمام ناقدین جان لیں کہ وفاقی جرمن حکومت اظہارِ یکجہتی کے لیے اُن کے ساتھ کھڑی ہے۔‘‘
خیال رہے کہ رواں برس جولائی میں ترکی میں ہونے والی ناکام فوجی بغاوت کے بعد صحافیوں اور سیاستدانوں کے خلاف صدر ایردوآن کی حکومت کا کریک ڈاؤن جاری ہے۔ ترک حکومت کا موقف ہے کہ یہ گرفتاریاں ترک مبلغ فتح اللہ گولن سے تعلق کے شبے میں کی جا رہی ہیں۔
ترکی میں اس حکومتی کریک ڈاؤن کے نتیجے میں جولائی سے اب تک تقریباً 170 میڈیا ادارے بند کیے جا چکے ہیں جبکہ سو سے زائد صحافیوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ اس کے علاوہ اس کارروائی میں جج، اساتذہ، پولیس اہلکار، سرکاری افسران، فوجی اہلکار اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے ایک لاکھ دس ہزار سے زائد افراد کو گرفتار یا ان کی ملازمتوں سے برطرف کیا جا چکا ہے۔