ترکی میں آئینی ریفرنڈم: حقائق، جو آپ کو جاننے چاہییں
11 اپریل 2017یہ سارا معاملہ ہے کیا؟
اس ریفرنڈم کے نتیجے میں ملکی آئین میں تبدیلی آئے گی اور وہاں پارلیمانی کی بجائے صدارتی نظام رائج ہو جائے گا۔ وزیر اعظم کا عہدہ ختم کر دیا جائے گا اور صدر کا انتخاب براہِ راست ووٹنگ کے ذریعے ہو گا۔ سربراہِ مملکت کے طور پر وہی حکومتی انتظامیہ کا سربراہ ہوا کرے گا۔
صدر کو متعدد اختیارات مل جائیں گے، جن میں بجٹ کے مسودے کی تیاری کے ساتھ ساتھ حکومتی وُزراء اور ججوں کی تقرری اور اُن کی سبکدوشی کے اختیارات بھی شامل ہیں۔ آج کل ترکی میں صدر غیر جانبدار ہوتا ہے لیکن آئندہ وہ کسی سیاسی جماعت کے ساتھ بھی وابستہ ہو سکے گا۔
گویا ایک طرح سے یہ ریفرنڈم صدر رجب طیب ایردوآن کی ذات پر ہے۔ وہ 2005ء سے صدر کے عہدے کی نئی تشریح کے لیے کوشاں ہیں۔ جولائی 2016ء کی ناکام بغاوت سے اُن کی کوششوں کو ایک نئی تحریک ملی۔ یہ اور بات ہے کہ اس ریفرنڈم نے ترک معاشرے کو تقسیم کر دیا ہے۔
ریفرنڈم کے حق میں کون؟
یہ بات باعث تعجب نہیں ہے کہ ایردوآن کی جماعت جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی (اے کے پی) کے ووٹر آئین میں تبدیلی کے حق میں ووٹ دیں گے۔ اُن کے خیال میں دورِ حاضر کے سیاسی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے یہ آئینی ترامیم ضروری ہیں۔ ترک پارلیمنٹ پہلے ہی آئینی ترامیم کی منظوری دے چکی ہے لیکن باقاعدہ منظوری کے لیے ریفرنڈم کے ذریعے عوامی تائید و حمایت حاصل کرنا لازمی ہے۔
ریفرنڈم کے خلاف کون؟
ترکی کی دو دیگر بڑی سیاسی جماعتیں یعنی بائیں بازو کی اعتدال پسند جماعت ری پبلکن پیپلز پارٹی (CHP) اور بائیں بازو کی پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (HDP) اس ریفرنڈم کی مخالفت کر رہی ہیں۔ حقوقِ انسانی کے علمبردار گروپ اور جمہوریت کی حامی تنظیمیں بھی آئینی ترامیم کے خلاف ووٹ دیں گی، جن کا موقف ہے کہ ان ترامیم کے نتیجے میں ایردوآن ایک آمر بن جائیں گے۔
اگر ریفرنڈم میں آئینی ترامیم منظور کر لی جاتی ہیں تو ایردوآن 2019ء میں ہونے والے آئندہ صدارتی انتخابات کے بعد مزید دو مرتبہ صدارت کے عہدے کے امیدوار ہو سکیں گے۔ گویا وہ 2029ء تک اقتدار میں رہ سکیں گے۔
کیا ’ہاں‘ میں آنے والا ووٹ ترک جمہوریت کی موت ہو گا؟
مجوزہ ترامیم میں بھی احتساب کی کچھ گنجائش رکھی گئی ہے۔ پارلیمنٹ کچھ معاملات میں صدر کے فیصلوں کو ختم کر سکے گی، تحقیقات شروع کرا سکے گی اور دو تہائی اکثریت سے اُس کا مواخذہ بھی کر سکے گی۔
دوسری طرف دیکھا جائے تو اب بھی ایردوآن نے جمہوری قدروں کی بیخ کنی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اپوزیشن سیاستدانوں اور صحافیوں کو جیلوں میں بھیج دیا گیا ہے، اُنہیں ہراساں کیا جا رہا ہے اور گزشتہ سال کی ناکام فوجی بغاوت کے بعد ایردوآن دو ہزار سات سو ججوں کو سبکدوش کر چکے ہیں۔ ایسے میں یہ تصور محال ہے کہ صدر کو زیادہ اختیارات ملنے کے بعد ملک زیادہ جمہوری ہو جائے گا۔
یورپی کمیشن نے صدارت کے عہدے میں اختیارات کے ارتکاز کی مذمت کی ہے اور مجوزہ آئینی ترامیم کو ’حد سے زیادہ‘ قرار دیا ہے۔
کیا بیرون ملک رہنے والے ترکوں کے ووٹ فیصلہ کن ثابت ہوں گے؟
ترک حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق پچپن لاکھ ترک شہری بیرون ملک مقیم ہیں۔ ان میں سے چھیالیس لاکھ مغربی یورپ میں ہیں۔ ایسے میں اَسّی ملین کی آبادی والے ترکی میں بیرون ملک مقیم ترکوں کے ووٹ اہم کردار ادا کریں گے۔
سولہ اپریل کے بعد آنے والی رات میں ریفرنڈم کے نتائج سامنے آ جائیں گے۔ آئینی ترامیم کی منظوری سے ترکی اور یورپی یونین کے درمیان تعلقات میں سرد مہری اور بھی بڑھ جائے گی لیکن مغربی دفاعی اتحاد نیٹو میں ترکی بدستور اپنا کردار ادا کرتا رہے گا۔