ترکی میں آزادیٴ اظہار کا مقدمہ، اگلی پیشی چھ مئی کو
22 اپریل 2016آج ترک شہر استنبول کے عدالتی کمپلیکس کے تیرہویں پینل کورٹ میں دو مقدمات کی کارروائیاں مکمل کی گئیں۔ ان میں سے ایک چار ٹیچروں سے متعلق ہے کہ وہ دہشت گردانہ پراپیگنڈے کے مرتکب ہوئے ہیں اور دوسرے کی کارروائی بند دروازے میں مکمل ہوئی۔ دوسرے مقدمے کے ملزمان روزنامہ جمہوریت کے انقرہ بیورو کے انچارج ایردیم گُل اور اِسی اخبار کے ایڈیٹر انچیف و سینیئر صحافی جان دُوندار ہیں۔ ان کو جاسوسی اور ریاستی راز افشاء کرنے کے الزامات کا سامنا ہے۔ مقدموں کی کارروائی پر احتجاج بھی کیا گیا۔ سینکڑوں مظاہرین ٹیچرز اور جمہوریت اخبار کی حامی کورٹ ہاؤس کے باہر جمع ہوئے۔ انہوں نے آزادئ اظہار اور ’یونیورسٹیوں میں امریت کے نفاذ ‘ کے حوالے سے نعرہ بازی کے علاوہ بینرز بھی اٹھائے ہوئے تھے۔
وکلائے دفاع کی ٹیم میں شامل ایک وکیل جارو پائلان نے سماعت کے بعد بتایا کہ عدالت میں یہ واضح کیا گیا کہ صحافت کسی صورت میں بھی جاسوسی کے زمرے میں نہیں لائی جا سکتی۔ ابتدائی دلائل کے بعد عدالت نے مقدمے کی کارروائی ملتوی کرتے ہوئے اگلی پیشی چھ مئی مقرر کی ہے۔ دُوندار نے بھی میڈیا سے مختصر بات کرتے ہوئے کہا کہ پیش رفت ہوئی ہے اور امکاناً اگلی پیش پر اُن کی بریت ہو سکتی ہے۔ آج کےمقدمے کی کارروائی سننے کے لیے جرمن پارلیمانی وفد بھی استنبول پہنچا ہوا ہے۔ استنبول کے یورپی یونین کے قونصل خانے کے سفارت کار بھی عدالت پہنچے ہوئے تھے۔ دونوں مقدمات اب عدالت میں دوبارہ چھ مئی کو پیش کیے جائیں گے۔
عدالت نے پروفسروں کو عدالتی کارروائی کے مکمل ہونے تک رہائی دے دی ہے۔ اگر استغاثہ عدالت میں چار ٹیچروں کو مجرم قرار دینے میں کامیاب ہو گیا تو ایسرا مُنگان، میرسل جامجی، کیوان ایرسائے اور مظفر کایا کو زیادہ سے زیادہ ساڑھے سات برس کی قید کا سامنا ہو سکتا ہے۔ دونوں صحافی مجرم قرار دیے گئے تو انہیں عمر قید کا سامنا ہو گا۔ ان چاروں اساتذہ کا جرم یہ بتایا گیاوہے کہ انہوں نے اُس ایک پٹیشن پر دستخط کیے تھے، جس میں جنوب مشرقی کرد علاقے میں حکومت کے فوجی آپریشن کی مذمت کی گئی تھی۔ اِس پٹیشن پر چاروں اساتذہ کے علاوہ ایک ہزار دوسرے افراد نے بھی دستخط کیے تھے۔ یہ پٹیشن رواں برس گیارہ مارچ کو ایک پریس کانفرنس عام کی گئی تھی۔
اِس پٹیشن پر ترکی کی نوے سے زائد یونیورسٹیوں کے کئی اساتذہ بھی دستخط کرنے والوں میں شامل ہیں۔ ان کے علاوہ امریکی دانشور ناؤم چومسکی سمیت درجنوں دوسرے غیرملکیوں نے بھی دستخط کیے تھے۔
پٹیشن میں دستخط کنندگان نے حکومتی ایکشن کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ جنوب مشرقی ترکی میں مقامی کرد آبادی کا دانستہ قتل عام کیا جا رہا ہے۔ پٹیشن کے مطابق حکومت مقامی کرد اور دوسری آبادی کی جبری منتقلی کا عمل بھی جاری رکھے ہوئے ہے۔ اِس پٹیشن کے مندرجات شائع ہونے سے قبل عام ہو گئے تھے۔ اس پر ترک صدر رجب طیب ایردوآن طیش میں آ گئے تھے اور انہوں نے واضح طور پر کہا کہ چاروں ٹیچرز نے قوم و ملک کے اعتماد کو ٹھیس پہنچاتے ہوئے بد عہدی کے گڑھے میں گر گئے ہیں۔ ایردوآن کے بیان کے بعد ترک استغاثہ نے اِن چاروں اساتذہ کے خلاف دہشت گردانہ پراپیگنڈے کے علاوہ نفرت اور مخاصمت کو فروغ دینے کے الزامات عائد کر دیے۔
یہ امر اہم ہے کہ ترک صدر رواں برس بیس جنوری کو بھی یونیورسٹی ٹیچرز کو اپنی ایک تقریر میں نشانہ بنا چکے ہیں۔ بیس جنوری کو ایردوآن نے کہا تھا کہ حکومتی خزانے سے پرکشش تنخواہیں لے کر آرام دہ زندگی گزارنے والے پروفیسروں کو جاننا چاہیے کہ اگر وہ ملکی اتحاد اور قوم کی یگانگت کو منتشر کرنے کی کوشش کریں گے تو پھر ایسے ٹیچروں کے لیے مراعات نہیں رہیں گی۔ دوسری جانب انقرہ کی مشہور ٹی او بی بی یونیورسٹی کے انٹرنیشنل ریلیشنز کے استاد براک اوپزیک کا کہنا ہے کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ صدر اور وزیراعظم میں افہام و تفہیم کی خلیج پھیل رہی ہے اور اساتذہ کے خلاف مقدمہ اِس کا ایک واضح ثبوت ہے۔