1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ترکی میں بچوں کے خلاف تشدد کے واقعات نظر انداز کیوں؟

19 اکتوبر 2024

ایک غیر سرکاری تنظیم کے مطابق گزشتہ اڑھائی سالوں میں ملک بھر میں کم از کم 64 بچوں کو قتل کیا گیا اور ان میں سے اکثر گھریلو تشدد کا شکار ہوئے۔

https://p.dw.com/p/4lFgF
 آٹھ سالہ نارین کے قتل سے ترکی میں غم و غصہ پایا جاتا ہے
آٹھ سالہ نارین کے قتل سے ترکی میں غم و غصہ پایا جاتا ہے تصویر: Anka

ترکی میں گزشتہ ماہ ایک کم سن بچی کے قتل نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا۔ یہ کیس ہفتوں تک ترک میڈیا کی سرخیوں میں رہا۔ آٹھ سالہ نارین گوران ملک کے جنوب مشرق میں واقع کرد اکثریتی صوبے دیار باقرکے ایک قریبی گاؤں تاوشان تپے کی رہائشی تھیں۔

 آٹھ ستمبر کو ایک دریا کے کنارے سے  ان کی بوری بند لاش ملنے سے قبل وہ کئی ہفتوں تک لاپتہ رہی تھیں۔ سوشل میڈیا پر بھی اس کیس پر بے شمار رپورٹیں اور تبصرے کیے گئے۔ وزیر انصاف یلماز ُتنج نے اس کرد گاؤں کا دورہ کیا اور صدر رجب طیب ایردوآن نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر وعدہ کیا کہ جو بھی اس جرم کا مرتکب ہوا ہے، اسے انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔ ان دونوں حکومتی عہدیداروں نے کہا کہ مجرموں کو ''سخت ترین سزا‘‘ ملے گی۔

نارین تاوشان تپے نامی گاؤں میں واقع اس گھر میں رہائش پزیر تھی
نارین تاوشان تپے نامی گاؤں میں واقع اس گھر میں رہائش پزیر تھیتصویر: Hozan Adar/DW

اس معاملے میں ملک گیر غم و غصے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ 550 مکینوں پر مشتمل پورا گاؤں اس قتل کے بارے میں کچھ بھی کہنے سے انکاری ہے۔ نارین کے خاندان کے کئی افراد بشمول ان کے والدین شک کی بنیاد پر زیر حراست ہیں۔ اس مقدمے کے سلسلے میں مجموعی طور پر اب تک 12 افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے، جن میں گاؤں کے سربراہ اور نارین کے چچا بھی شامل ہیں۔

فرانزک ماہرین کا کہنا ہے کہ لڑکی کا قتل گلا دبا کر کیا گیا۔ عوامی رائے یہ ہے کہ اس گاؤں کے کسی فرد کو معلوم ہونا چاہیے کہ نارین کو کس نے قتل کیا لیکن کوئی اس بارے میں ایک لفظ بھی نہیں کہہ رہا۔ مرسین یونیورسٹی میں فارنزک ڈاکٹر اور چائلڈ پروٹیکشن سینٹر کے ڈائریکٹر ہالیس ڈوک گوز کا کہنا ہے، ''ترکی کو ایک پیچیدہ کیس کا سامنا ہے۔ قاتل کو مقتول کے خاندان اور اس کے قریبی لوگ پناہ دے رہے ہیں۔‘‘

ترکی کے، جس خطے میں نارین رہتی تھیں، وہ روایتی اور قدامت پسند ہے اور معاشرہ قبائلی اقدار پر مبنی ہے۔ ڈوک گوز کا کہنا ہے کہ ایسی کمیونٹیز میں بچوں کو اکثر ''معروضی‘‘ بنا دیا جاتا ہے، مطلب یہ ہے کہ ان کی موت کی اہمیت کم کر کے پیش کیا جاتا ہے، ''ایسے معاملات میں زیادہ تر مجرم وہ شخص ہوتا ہے، جسے بچہ پہلے سے جانتا ہے۔‘‘

عدم تحفظ

نارین کا معاملہ بھی منفرد نہیں ہے۔ غیر سرکاری تنظیم  ٹرکش چائلڈ رائٹس سینٹر (FISA) کے مطابق گزشتہ اڑھائی سالوں میں ملک بھر میں کم از کم 64 بچوں کو قتل کیا گیا اور ان میں سے اکثر گھریلو تشدد کا شکار ہوئے۔

ترک حکام نے 2016 سے اب تک ہلاک یا لاپتہ ہونے والے بچوں کے بارے میں سرکاری اعداد و شمار شائع نہیں کیے ہیں۔ تازہ ترین شائع شدہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ 2008 سے 2016 کے دوران ملک بھر میں 104,531 بچے لاپتہ ہوئے۔ اس کے بعد یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ اب تک ان میں سے کتنے بچے مل سکے ہیں، مردہ ہیں یا زندہ؟

نارین کی بوری بند لاش اس دریا کے کنارے سے آٹھ ستمبر کو ملی تھی
نارین کی بوری بند لاش اس دریا کے کنارے سے آٹھ ستمبر کو ملی تھیتصویر: Felat Bozarslan/DW

ماہرین اس شعبے میں شفافیت اور احتیاطی پالیسیوں کے فقدان پر تنقید کرتے ہیں اور لاپتہ بچوں کے بارے میں معلومات کو منظم طریقے سے جمع اور شائع کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ FISA سے تعلق رکھنے والی ایزگی کومان  کہتی  ہیں،''ہمیں مسئلے کے سیاسی حل کے لیے ڈیٹا کی ضرورت ہے۔‘‘

وہ کہتی ہیں کہ بچوں کے حقوق سے متعلق اقوام متحدہ کی کمیٹی (سی آر سی) کئی سالوں سے ترک حکام سے متعلقہ معلومات فراہم کرنے کی اپیل کر رہی ہے، ''اگرچہ ان (حکومت) کے پاس ڈیٹا ہے لیکن وہ اسے خفیہ رکھے ہوئے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ وہ جوابدہ نہیں ہونا چاہتے۔ یا وہ لوگوں کو یہ جاننے سے روکنا چاہتے ہیں کہ صورتحال کتنی سنگین ہے؟‘‘

ڈی ڈبلیو نے ان بیانات کے حوالے سے ترکی کی خاندانی امور کی وزارت اور شماریاتی ادارے (TUIK) سے رابطے کیے لیکن ابھی تک اس کا کوئی متعلقہ جواب نہیں ملا ہے۔

'بچوں کی اپنے حقوق سے آگاہی لازمی‘

ڈوک گوز کا کہنا ہے کہ اگر اس طرح کا ڈیٹا دستیاب ہوتا تو فرانزک ڈاکٹر، سماجی کارکن، ماہر نفسیات اور پولیس ممکنہ طور پر ایسے معاملات کو روکنے کے لیے حکمت عملی تیار کر سکتے تھے۔ انہوں نے کہا، ''فی الحال ہم کچھ بھی نہیں جانتے۔ ہم کسی کیس کے پبلک ہونے کے بعد ہی اس کی پیروی کرتے ہیں اور جب ہم ایسا کرتے ہیں تو ہم صرف اس سوال پر توجہ مرکوز کرتے ہیں: ''قاتل کون ہے؟ یہ غلط ہے۔‘‘

 ڈاکٹر ڈوک گوز  محسوس کرتے ہیں کہ  ایسے معاملات کو روکنے کے لیے پائیدار حل تلاش کرنے کے لیے درکار حکومتی حوصلہ افزائی کی کمی ہے۔

مظاہرین نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے مزید اقدامات کرے
مظاہرین نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے مزید اقدامات کرےتصویر: OZAN KOSE/AFP

بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی ایک اور غیر سرکاری تنظیم چائلڈ ایڈوکیٹس نیٹ ورک (سی اے سی اے وی) کے کوآرڈینیٹر شاہین انتاکیالی اولو کی بھی یہی رائے ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بچوں کے تحفظ کے لیے تمام ڈیٹا اور ''بنیادی حل پر مبنی پالیسی‘‘ کے ساتھ عوامی طور پر دستیاب انتباہی نظام ہونا چاہیے۔

 ان کا کہنا ہے کہ اس میں متاثرین کی مدد کے لیے ایک آسانی سے قابل رسائی  ہاٹ لائن شامل ہو، جس پر تمام بچے کال کر سکتے ہوں، چاہے وہ شہر میں رہتے ہوں یا گاؤں میں اور ''ایک ایسا تعلیمی نظام بھی ہونا چاہیے، جو بچوں کو سکھائے کہ ان کے کیا حقوق ہیں۔‘‘

انتاکیالی اولو کا کہنا ہے، ''بچوں کو ایسے حقوق دینے کا کوئی مطلب نہیں ہے، اگر وہ ان سے واقف نہیں ہے۔ کیا ہم بچوں کو بتاتے ہیں کہ اگر کوئی انہیں چھوتا ہے تو وہ اس کی اطلاع کہاں دے سکتے ہیں؟ ہمیں ان کے اسکول جانے سے پہلے ہی انہیں یہ چیزیں سکھانا شروع کر دینا ہوں گی۔‘‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ جب کوئی انہیں کچھ کرنے پر مجبور کرے تو بچوں کو اس کے خلاف آواز اٹھانے کے قابل ہونا چاہیے۔ ان کا کہنا ہے کہ جب تک ترکی یہ تمام اقدامات کرنے میں کامیاب نہیں ہو جاتا، اس وقت تک  ترک معاشرہ آٹھ سالہ نارین جیسے واقعات سے صدمے کا شکار ہوتا رہے گا۔

 بُراک انویرین، پیلن اونکر (ش ر⁄ ا ا)