ترکی میں گوسن سے مبینہ رابطے پر سات افراد سے پوچھ گچھ
2 جنوری 2020ترک تفتش کاروں نے نسان کے سابق سی ای او کارلوس گوسن سے متعلق ان خبروں کے بعد کہ وہ لبنان سے قبل استنبول کے ہوائی اڈے پر اترے تھے، چار پائلٹوں سمیت سات افراد سے پوچھ گچھ کی ہے۔ گوسن کی ترکی میں موجودگی سے متعلقہ حکام لاعلم تھے۔ کارلوس گوسن جاپان میں اپنے خلاف جاری مقدمے سے بچنے کے لیے ٹوکیو سے فرار ہو کر لبنان پہنچے ہیں۔ تاہم ترک میڈیا کے مطابق لبنان پہنچنے سے قبل وہ استنبول کے ہوائی اڈے پر اترے تھے۔
کھربوں ڈالر کا کاروبار کنٹرول کرنے والے گوسن جاپان سے فرار
ایغور مسلمانوں کی حق تلفیاں: فوکس ویگن کی اپنے دفاع کی کوشش
ترک اخبار حریت کی ویب سائٹ پر وزارت داخلہ کے ذریعے کے حوالے سے لکھا گیا ہے کہ ترک حکام گوسن کے ترکی پہنچنے اور وہاں رکنے سے متعلق لاعلم تھے۔ کہا جا رہا ہے کہ استنبول سے گوسن ایک پرائیویٹ طیارے کے ذریعے بیروت روانہ ہوئے تھے۔ گوسن کا کہنا ہے کہ وہ جاپان کے 'بے ضابطگیوں کے شکار نظامِ انصاف‘ کی وجہ سے اپنے خلاف مقدمے کے آغاز سے قبل فرار ہوئے۔ ان کے مطابق انہیں جاپان میں بنیادی انسانی حقوق سے پہلو تہی کا خدشہ تھا اور ان کے خلاف مقدمہ تفریق کی بنا پر بنایا گیا تھا، جس میں جرم ثابت ہونے سے قبل ہی انہیں مجرم قرار دیا جا رہا تھا۔
جمعرات کے روز جاپانی تفتیش کاروں نے ٹوکیو میں گوسن کے اپارٹمنٹ پر چھاپا مارا تھا۔ جاپانی حکام اس بات کی تفتیش کر رہے ہیں کہ گوسن ملک سے فرار ہونے میں کیسے کامیاب ہوئے۔
یہ بات اب تک واضح نہیں کہ جب جاپانی پولیس گوسن کی سخت نگرانی کر رہی تھی، تو وہ اپنے اپارٹمنٹ اور ملک سے کیسے فرار ہوئے۔ یہ بات اہم ہے کہ سابقہ کاروباری شخص گوسن کے پاس فرانس، برازیل اور لبنان کی شہریت ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ ان کے تین پاسپورٹ ان کے وکیل کے پاس تھے، تاہم دو میں سے ایک 'فرانسیسی پاسپورٹ‘ انہیں رکھنے کی اجازت ملی تھی۔
فرانسیسی حکومت کی جانب سے جمعرات کے روز کہا گیا ہے کہ اگر گوسن فرانس پہنچتے ہیں، تو انہیں جاپان کے حوالے نہیں کیا جائے گا۔ فرانسیسی موقف ہے کہ پیرس حکومت اپنے ملک کے کسی شہری کو کسی دوسرے ملک کے حوالے نہیں کرتی۔ یہ بات اہم ہے کہ گوسن فرانسیسی کار ساز ادارے رینولٹ کے بھی چیف ایگزیکٹیو آفیسر رہ چکے ہیں۔ یہ فرانسیسی کارساز ادارہ نسان کا اسٹریٹیجک پارٹنر بھی ہے۔
گوسن کو فرانس میں بھی تفتیش کا سامنا ہے، تاہم ان پر اب تک کوئی فردجرم عائد نہیں کی گئی ہے۔
یہ بات اہم ہے کہ نسان کو سن 2001 میں نقصانات کا سامنا تھا اور تب گوسن کو بطور چیف ایگزیکٹیو آفیسر تعینات کیا گیا تھا۔ اس فیصلے پر جاپان میں تنقید بھی کی گئی تھی، کیوں کہ وہاں غیرملکیوں کو اس طرح کے اہم عہدے عموماﹰ نہیں دیے جاتے۔ تاہم بعد میں گوسن کو نہایت مثبت تشخص حاصل ہواکیوں کہ انہوں نے نسان کو ایک مرتبہ پھر ایک منافع بخش ادارہ بنا دیا۔ سن 2018 میں تاہم ان کے خلاف غلط اکاؤنٹنگ اور بدعنوانی کے الزامات کے تحت تفتیش شروع کی گئی تھی۔ گوسن نے تاہم ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے اسے نسان میں دیگر افسروں کی ملی بھگت قرار دیا تھا۔
الیزبیتھ شوماخر، ع ت، ک م