جرمن اراکین پارلیمان کو فوجی بیس پر آنے کی اجازت دے دی، ترکی
8 ستمبر 2016جرمن وزیر خارجہ فرانک والٹر شٹائن مائر نے ترک حکومت کے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے کہ جرمنی کی دفاعی کمیٹی کو اس فوجی اڈے کا دورہ کرنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔ ان کا کہنا تھا، ’’ یہ فوج پارلیمان کی ہے اور اراکین پارلیمان کو ان سے ملنے کی اجازت ہونی چاہیے۔ ترک حکومت کے اس فیصلے کے ساتھ ہم ایک قدم مزید آگے کی طرف آئے ہیں۔‘‘
ابتدائی اطلاعات کے مطابق جرمن اراکین پارلیمان کو چار سے چھ اکتوبر کے درمیان اس فوجی اڈے پر جانے کی اجازت دی گئی ہے۔
ترکی اور جرمنی کے مابین یہ تنازعہ اس وقت کھڑا ہوا تھا، جب جرمن پارلیمان نے سلطنت عثمانیہ کے دور میں آرمینیائی شہریوں کی ہلاکتوں کو نسل کشی قرار دیا تھا۔ اس کے جواب میں ترکی نے جرمن اراکین کے اینجرلِک فوجی بیس میں داخلے پر پابندی عائد کر دی تھی۔
ترکی کا موجودہ فیصلہ جرمنی کی وفاقی حکومت کے جمعے کے روز کیے گئے اس اعلان کے بعد آیا ہے، جس میں جرمن حکومت نے کہا تھا کہ آرمینیا کے حوالے سے منظور کی گئی قرارداد کی قانونی حیثیت نہیں ہے۔ قبل ازیں جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے جی ٹوئنٹی کانفرنس میں ترک صدر رجب طیب ایردوآن سے ملاقات کی تھی، جس کے بعد انہوں نے کہا تھا کہ آنے والے دنوں میں ترکی کی طرف سے مثبت جواب سامنے آنے کی امید ہے۔
یاد رہے کہ اینجرلِک میں جرمن جاسوس طیارے ٹورناڈو داعش کے خلاف قائم کیے گئے بین الاقوامی اتحاد کا حصہ ہیں۔ یہ طیارے شام اور عراق میں جاری امریکی کارروائیوں کو مدد فراہم کرتے ہیں۔ ترکی کی طرف سے انکار کے بعد جرمنی کے چند اراکین پارلیمان نے کہا تھا کہ جرمن فوجیوں کو واپس بلا لیا جائے۔
اس وقت جرمنی کی ماحول دوست گرین پارٹی کے دفاعی شعبے کے ماہر تھوبیاس لنڈنر نے جرمن اخبار ’بلڈ‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے برلن حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ اینجرلِک کی چھاؤنی میں تعینات جرمن دستوں کی رہائش اور دیکھ بھال کے منصوبوں میں توسیع کرنے کے اپنے فیصلے پر فوری طور پر نظر ثانی کرے۔ ان کا کہنا تھا، ’’اگر ترکی ہمارے سیاستدانوں کو ہمارے ہی فوجی دستوں سے ملنے کی اجازت نہیں دے گا تو جرمن فوج کو بھی ٹیکس کی رقوم سے چھاؤنی پر خرچ کرنے کو کوئی ضرورت نہیں۔‘‘