1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ترکی نے چار سال بعد اسرائیل میں اپنا سفیر تعینات کر دیا

12 نومبر 2022

انقرہ نے مئی 2018ء میں فلسطینیوں کی ہلاکت پر بطور احتجاج اسرائیل سے اپنا سفیر واپس بلا کراسرائیلی سفیر کو نکال دیا تھا۔ دونوں ممالک کے درمیان رواں برس کے آغاز پر تعلقات میں بہتری آنی شروع ہوئی تھی۔

https://p.dw.com/p/4JQqB
Türkei Isaac Herzog zu Gast bei Recep Tayyip Erdogan
تصویر: Burhan Ozbilici/ASSOCIATED PRESS/picture alliance

ترکی نے چار سال کے وقفے کے بعد اسرائیل میں اپنا سفیر تعینات کر دیا ہے۔ ترک ذرائع ابلاغ کی رپورٹوں کے مطابق نامزد ترک سفیر شاکر اوزکان تورونلر ایک تجربہ کار سفارت کار ہیں جو 2010ء اور 2014ء کے درمیان یروشلم میں ترکی کے قونصل جنرل کے طور پر خدمات انجام دے چکے ہیں۔ ان کی بطور سفیر تقرری جمعہ کی شب ایک صدارتی حکم نامے کے زریعے کی گئی۔

اسرائیلی وزیراعظم کی 14 سال بعد ترک صدر سے ملاقات

یہ ترکی کی جانب سے اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کی جانب تازہ ترین قدم ہے۔ انقرہ نے مئی 2018ء میں بطور احتجاج اسرائیل سے اپنا سفیر واپس بلا لیا تھا اور اسرائیلی فوج کی طرف سے درجنوں فلسطینیوں کی ہلاکت پر اسرائیلی سفیر کو ملک بدر کر دیا تھا۔

Treffen zwischen Mevlut Cavusoglu und Yair Lapid
اسرائیلی وزیر اعظم یائر لاپیڈ نے بطور وزیر خارجہ جون می انقرہ کا دورہ کرکہ اس وقت کے اپنے ترک ہم نصب میولت چاوش اولو سے ملاقات کی تھیتصویر: Necati Savas/AP/picture alliance

اسرائیل نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے یروشلم میں ترک قونصلر کو واپس ترکی بھیج دیا تھا۔

ترکش صدر رجب طیب ایردوآن کی طرف سے نومنتخب اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کی پچھلی حکومتوں کے ادوار میں فلسطینیوں کے حوالے سے اسرائیل کی پالیسی پر تنقید کے بعد دونوں کے درمیان تعلقات خراب ہو گئے۔ تاہم ایردوآن نے حالیہ اسرائیلی انتخابات میں کامیابی پر نیتن یاہو کا ایک تہنیتی خط بھجوایا۔

اسرائیلی صدر کا ترکی دورہ 'تاریخی' اور باہمی تعلقات میں 'اہم سنگ میل'، ایردوآن

اس سے قبل اگست کے مہینے میں ترکی اور اسرائیل کی جانب سے تعلقات کی مکمل بحالی کا اعلان ایک ایسے وقت میں کیا گیا تھا، جب اسی مہینے اسرائیلی وزیر اعظم نے ترکی کا دورہ کیا تھا۔ بعد ازاں اسرائیلی وزیر اعظم یائر لاپیڈ کے دفتر کی طرف سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا تھا کہ دونوں ممالک نے سفیروں اور قونصل جنرلز کو بحال کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

اس بیان میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ سفارتی تعلقات کی بحالی کا یہ فیصلہ اسرائیلی وزیراعظم کے دورہ ترکی اور ترک صدر رجب طیب ایردوآن کے ساتھ بات چیت کے بعد کیا گیا۔ بیان میں مزید کہا گیا تھا، ''ترکی کے ساتھ تعلقات کی مکمل بحالی علاقائی استحکام کے لیے ایک اہم اثاثہ اور اسرائیل کے شہریوں کے لیے بہت اہم اقتصادی خبر ہے۔‘‘

Israel | Wahlen Benjamin Netanjahu
ترکش صدر ایردوان نے حالیہ انتخابات میں کامیابی پر بینجمن نیتن یاہو کو مبارکباد کا تحریری پیغام بھیجا تصویر: Ronen Zvulun/REUTERS

اس سال کے آغاز سے ہی یہ دونوں ملک طویل عرصے سے کشیدہ تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے کام کر رہے تھے اور اس حوالے سے توانائی کے شعبے میں ممکنہ تعاون کی امید نے اہم کردار ادا کیا۔ رواں برس مارچ میں اسرائیلی صدر اسحاق ہیرسوگ نے انقرہ کا دورہ کیا تھا اور اس کے بعد سے دونوں ملکوں کے مابین تعلقات میں بتدریج بہتری ہو رہی تھی۔

خطے کے دو بڑے حریف، ترکی اور اسرائیل باہمی قربت کے لیے کوشاں

اسرائیلی صدر گزشتہ دس برسوں میں ترکی کا دورہ کرنے والے اعلیٰ ترین عہدیدار تھے۔ ترکی اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے والے اولین اسلامی ممالک میں شمار ہوتا ہے اور اس کے اسرائیل کے ساتھ قریبی تعلقات تھے۔ ان تعلقات کو اس وقت بڑا دھچکا لگا تھا، جب اسرائیلی نیوی نے سن 2010ء میں غزہ تک امدادی سامان پہنچانے کی کوشش کرنے والے ایک ترک بحری جہاز پر دھاوا بولا تھا اور اس کے نتیجے میں ترک شہری بھی مارے گئے تھے۔

اسرائیل کے ساتھ تعاون کو تیار ہیں، ترک صدر

Wahlen in Israel
سن دو ہزار اٹھارہ میں اسرائیلی سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں فلسطینیوں کی ہلاکت کے بعد ترکی نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات ختم کیےتصویر: Nasser Ishtayeh/ZUMA/IMAGO

پھر سن 2016ء میں تعلقات کی بحالی ممکن ہوئی لیکن سن 2018ء کے بحران کی وجہ سے یہ تعلقات پھر سردمہری کا شکار ہو گئے۔ تعلقات میں کشیدگی کی وجہ  یروشلم میں امریکی سفارت خانہ کھولنے کے خلاف غزہ کی سرحد پر احتجاج کے دوران اسرائیلی فورسز کے ہاتھوں 60 فلسطینیوں کا مارا جانا تھا۔ تاہم اب دونوں جانب سے ایک دوسرے کو اہم علاقائی شراکت دار قرار دیے جانے کے ساتھ ساتھ مستقبل میں بہتر تعلقات کے قیام کا اظہار کیا گیا ہے۔

ش ر / ع آ (ڈی پی اے، اے ایف پی)