ترکی کو یورپی یونین میں شامل کیا جائے: باراک اوباما
5 اپریل 2009امریکی صدر باراک اوباما نے یورپی یونین کے ساتھ سربراہ میٹنگ میں جہاں عالمی چیلنجز کا سامنا مشترکہ طور پر کرنے اتفاق کیا وہیں انہوں نے ترکی کی یورپی یونین میں شمولیت کی پرزور انداز میں وکالت کی۔ اُنہوں نے کہا کہ امریکہ اور یورپ کو لازماً مسلم دنیا سے رابطہ استور کرنا ہو گا ۔ انصاف اور حقوق کے حصول کی جدو جہد میں اُن کو بطور دوست، ہمسایوں اور پارٹنرز کے طور پر لینا ہو گا۔ یورپی لیڈروں پر اوباما نے واضح کیا کہ ترکی کی یورپی یونین میں بطور ممبر شمولیت یورپی کمٹمنٹ کا طاقتور پیغام ہوگا۔
اوباما کے بیان پر یورپی لیڈروں کا ردعمل سامنے آنا شروع ہو گیا ہے۔ سارکوزی نےTF1 ٹیلی ویژن کو انٹرویو میں ترکی کی شولیت کی مخالفت کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ یورپی یونین کے ممبران پر ہے کہ وہ کیا فیصلہ کرتے ہیں لیکن اکثریت کی رائے فرانس جیسی ہے۔ جرمن چانسلر اینگلا میرکل نے اوباما کے بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ یونین میں مختلف آراء اِس مناسبت سے موجود ہیں۔
اٹلی کے وزیر اعظم سلویو برلسکونی نے اوباما کے بیان کی حمایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ترکی کی یونین میں ممبر شپ کے حامی ہیں۔ یورپی کمیشن کے صدر خوصے مانویل بارروسو نے اوباما کے بیان کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ ترکی کے ساتھ ممبر شپ کی بات چیت جاری ہیں اور یہ دیکھا جائے گا کہ ترکی ممبر شپ کے تیار ہے اور کس حد تک یورپ اُس کو اپنے اندر جذب کرنے کے لئے تیار ہے۔
امریکی صدر اوباما اتوار کی شب کو چیک جمہوریہ کا دورہ مکمل کرنے کے بعد ترکی کے دارالحکومت انقرہ پہنچ جائیں گے۔ ترکی اُن کے دورے کی آخری منزل ہے اور پیر کی شام کو اپنی مصروفیات مکمل کرنے کے بعد وہ واشنگٹن روانہ ہوجائیں گے۔
یورپی یونین کے صدر ملک کے دارالحکومت پراگ میں باراک اوباما نے ایک پبلک جلسے سے بھی خطاب کیا۔ امریکی صدر کی تقریر سننے کے لیے تیس ہزار کے قریب افراد پراگ میں جمع تھے۔ اوباما کا کہنا تھا کہ گو کہ ایٹمی جنگ کا خطرہ کم ہوچکا ہے تاہم ایٹمی حملے کا امکان پہلے سے زیادہ بڑھ گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکہ نہ صرف اپنے لیے بلکہ یورپ میں اپنے اتحادیوں کے تحفظ کے لیے چیک جمہوریہ اور پولینڈ میں دفاعی نظام کی تنصیب ترک نہیں کرے گا۔ اس حوالے سے انہوں نے چیک جمہوریہ اور پولینڈ کو ’نڈر‘ قرار دیا۔
امریکی صدر پانچ ممالک کے آٹھ روزہ دورے پر ہیں۔ اس سے قبل وہ لندن میں جی بیس ممالک کے اجلاس میں شریک ہوئے اور بعد ازاں انہوں نے فرانس اور جرمنی کا دورہ کیا جہاں انہوں نے نیٹو کی ساٹھویں سالگرہ کے موقع پر منعقد کیے گئے اجلاس میں شرکت کی۔ چیک جمہوریہ کے بعد وہ ترکی کا دورہ کریں گے۔
دوسری جانب امریکی صدر باراک اوباما نے دنیا کو جوہری ہتھیاروں سے پاک کرنے کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے جوہری ہتھیاروں کو ’سرد جنگ کی سب سے خطرناک میراث‘ قرار دیا۔ انہوں نے شمالی کوریا کی جانب سے کیے گئے راکٹ تجربے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ پیانگ یانگ نے بین الاقوامی ضوایط کی خلاف ورزی کی ہے اور تمام دنیا کو پیانگ یانگ پر دباؤ بڑھانا چاہیے۔
باراک اوباما نے جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے کو مضبوط تر بنانے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔
ایران سے متعلق باراک اوباما کا کہنا تھا کہ اس کو پر امن جوہری توانائی کے حصول کا حق حاصل ہے تاہم اس حوالے سے اس کو سخت بین الاقوامی تفتیش سے گزرنا ہوگا۔
واضح رہے کہ مرکزی یورپ کے ممالک اسٹالنسٹ کمیونزم کے زوال کے بیس برس مکمل ہونے کی تقریبات کا بھی اہتمام کر رہے ہیں۔ امریکی صدر اوباما نے چیک جمہوریہہ کے ’عزم‘ کو متاثر کن قرار دیا۔