ترکی کی سياسی صورتحال، يورپی حکام کے ليے تشويش کا باعث
6 مئی 2016اٹھائيس رکنی يورپی يونين کے خارجہ امور کی سربراہ فيدیريکا موگیرينی نے کہا ہے کہ احمد داؤد اولُو کے حکومت سے الگ ہو جانے کے اعلان کے ممکنہ اثرات کے بارے ميں بات کرنا فی الحال قبل از وقت ہو گا۔ موگیرينی نے يہ بيان کوسووو ميں پانچ مئی کو اپنے ایک دورے کے دوران دیا۔
قبل ازيں جمعرات ہی کے روز ترک وزیر اعظم داؤد اولُو نے اپنی سیاسی جماعت کی سربراہی سے مستعفی ہونے کا اعلان کر ديا تھا، جس کے بعد وہ وزیر اعظم بھی نہیں رہیں گے۔ احمد داؤد اولُو کے مطابق وہ بائیس مئی کو اپنی جماعت ’اے کے پی‘ کے اجلاس میں پارٹی قیادت کے لیے انتخاب میں حصہ بھی نہیں لیں گے۔ اے کے پی کے ضوابط کے مطابق پارٹی کا چیئرمین ہی حکومت کا سربراہ بنتا ہے۔ ترک صدر اور وزیر اعظم کے درمیان اختلافات کی خبریں گزشتہ کئی مہینوں سے گردش کر رہی تھیں۔
يورپی يونين ان دنوں ترکی کے ساتھ متعدد معاملات پر مذاکرات ميں مصروف ہے۔ مہاجرين کی يورپ کی جانب غير قانونی مہاجرت کو روکنے کے ليے اٹھارہ مارچ کو انقرہ اور برسلز کے مابين طے پانے والے معاہدے پر عملدرآمد جاری ہے جبکہ اسی تناظر ميں ترک شہريوں کے ليے يورپی بلاک ميں بغير ويزے کے سفر کے معاملے کو بھی آگے بڑھايا جا رہا ہے۔ يہی وجہ ہے کہ ترکی ميں موجودہ سياسی صورتحال يورپی حکام کے ليے تشويش کا باعث بن رہی ہے۔
اس پيش رفت پر بات چيت کرتے ہوئے موگیرينی نے کہا، ’’ہم ظاہر ہے اس پر سب سے پہلے ترک حکام کے ساتھ رابطہ کريں گے اور مل کر اس بات کا فيصلہ کريں گے کہ آگے کيسے بڑھا جائے۔‘‘
ايک يورپی اہلکار کے مطابق اس معاہدے کا مستقبل اب ترک حکام کے ہاتھوں ميں ہے جبکہ ايک اور اہلکار کے بقول يورپ اپنا کردار ادا کر چکا ہے اور ڈيل کے تحت اپنی شرائط پوری کر چکا ہے۔ اس اہلکار نے کہا کہ يورپی کميشن نے اس ہفتے بدھ کے روز ڈيل کی اہم ترين شرط پر عملدرآمد کو آگے بڑھا ديا ہے۔ کميشن کی جانب سے رکن رياستوں کو يہ ہدايت جاری کر دی گئی ہے کہ جولائی تک ترک باشندوں کے ليے ويزے کی شرط ختم کر دی جائے۔
ايک اور يورپی اہلکار نے بھی اسی بارے ميں گفتگو کے دوران کہا کہ گرچہ اس ڈيل کو حتمی شکل احمد داؤد اولُو نے دی تھی تاہم انہيں اس کے ليے صدر رجب طيب ايردوآن کی حمايت حاصل تھی۔ انہوں نے کہا، ’’معاہدہ ترکی کے ساتھ کیا گیا ہے، نہ کہ داؤد اولُو کے ساتھ۔‘‘