ترکی کی مخالفت، جرمن چانسلر ’بے بس‘ ہو گئیں
7 ستمبر 2017جمعرات کو یورپی یونین کے وزرائے خارجہ کے ایک اجلاس میں جرمنی کے اس موقف کی شدید مخالفت دیکھنے میں آئی ہے، جس میں کہا گیا تھا کہ یورپی یونین میں شمولیت کے حوالے سے ترکی کے ساتھ جاری مذاکرات کا خاتمہ کیا جائے۔ یورپی کمیشن کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ وہ آئندہ برس تک ایسا کوئی بھی اقدام اٹھانے کے لیے تیار نہیں ہے، جس کے تحت ترکی کے ساتھ جاری مذاکرات کو ختم کیا جا سکتا ہے۔
یورپی کمیشن کے اس بیان سے پہلے فن لینڈ اور لیتھوانیا کے عہدیداروں نے کہا تھا کہ وہ ترکی کے ساتھ مذاکرات ختم کرنے کی مخالفت کرتے ہیں۔ فن لینڈ کی سفارت کار ٹیمو سونی کا کہنا تھا، ’’ہم جانتے ہیں کی انسانی حقوق کے حوالے سے ترکی میں مسائل ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ مذاکرات کا سلسلہ منقطع کر دیا جائے۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ انقرہ حکومت کے ساتھ مسائل حل کرنے کا واحد راستہ صرف مذاکرات ہی ہیں۔
ایردوآن کی قیادت میں ترکی یورپی یونین میں؟ ’کبھی بھی نہیں‘
جرمن وزیر خارجہ ’اپنی حدود میں رہیں‘، ایردوآن
لیتھوانیا کے وزیر خارجہ لیناس لینکویچس کا کہنا تھا، ’’ہمیں مذاکرات کا عمل جاری رکھنا چاہیے۔ ہم جانتے ہیں کہ یہ آسان نہیں ہے لیکن ہمیں ترکی کے ساتھ رابطوں کی قدر کرنی چاہیے۔ رابطے ختم کرنے سے مسائل حل نہیں ہوں گے۔ اس کا اس کے برعکس نتیجہ نکلے گا، جو ہم چاہتے ہیں۔‘‘
دوسری جانب فرانسیسی صدر ایمانوئیل ماکروں نے ترکی کو یورپی یونین کا مرکزی ساتھی قرار دیا ہے۔ یونان میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے ترکی کی یورپی یونین میں شمولیت کے حوالے سے جاری مذاکرات ختم کرنے سے بھی خبردار کیا ہے۔ ماکروں کے مطابق ترکی حالیہ چند ماہ سے یورپی یونین سے دوری اختیار کر رہا ہے اور اسے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ ان کا کہنا تھا کہ مہاجرین کے بحران کے خاتمے اور دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے ترکی اہم کردار ادا کر رہا ہے۔
ان بیانات کے بعد برلن حکومت کی وہ خواہش دم توڑ گئی ہے کہ ترکی کے ساتھ جاری مذاکرات ختم کر دیے جائیں۔ چند رو پہلے جرمنی میں چانسلر شپ کے دونوں امیدواروں انگیلا میرکل اور مارٹن شُلس نے کہا تھا کہ وہ ترکی کی یورپی یونین میں شمولیت کے مخالف ہیں اور انقرہ حکومت کے ساتھ جاری مذاکرات کا خاتمہ چاہتے ہیں۔