ترکی کے آئندہ انتخابات میں کیا داؤ پر لگا ہوا ہے؟
22 مارچ 2023ترک صدر رجب طیب ایردوآن کو مئی کے صدارتی اور پارلیمانی انتخابات میں اپنی بیس سالہ حکمرانی کا سب سے بڑا امتحان درپیش ہے، جو نہ صرف یہ طے کرے گا کہ مستقبل میں ترکی کی قیادت کون کرے گا بلکہ اس سے یہ بھی طے ہو جائے گا کہ اس ملک پر کیسے حکومت کی جائے گی، اس کی معیشت کہاں جا تی ہے اور یوکرین اور مشرق وسطیٰ میں تنازعات کم کرنے کے لیے وہ کیا کردار ادا کر سکتا ہے۔
جنوب مشرقی ترکی میں گزشتہ ماہ آنے والے طاقتور زلزلے میں دسیوں ہزار افراد ہلاک اور لاکھوں بے گھر ہو گئے۔ اس زلزلے کے تین ماہ بعد چودہ مئی کو ملک میں صدارتی اور پارلیمانی انتخابات کا انعقاد کیا جارہا ہے۔
متفہ امیدوار
حزب اختلاف کی جماعتوں نے متفقہ طور پر اپنے صدارتی امیدوار کے طور پر ریپبلکن پیپلز پارٹی کے رہنما کمال کلیچ دار اولو کو نامزد کیا ہے۔ اپوزیشن جماعت کے اس اتحاد کا مقصد بائیں اور دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے ووٹروں کے ساتھ ساتھ اسلام پسندوں کی بھی اپنی طرف راغب کرنا ہے۔
حزب اختلاف نے ایردوآن کی بہت سی پالیسیوں میں تبدیلی لانے کا وعدہ کیا ہے۔ ایردوآن مذہبی نظریے ، فوجی حمایت یافتہ سفارت کاری اور کم شرح سود کے حامی ہیں۔
انتخابی خدشات
مصطفیٰ کمال اتاترک کے ایک صدی قبل جدید ترک جمہوریہ کی بنیاد رکھنے کے بعد سے اب تک کے سب سے طاقتور رہنما ایردوآن اور ان کی اسلام پسند جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی (اے کے پی) نے ترکی کو اتاترک کے سیکولر بنیادوں سے دور کر دیا ہے۔
ایردوآن نے اختیارات کو صدارتی عہدے میں مرتکز کر دیا ہے اور وہ دارالحکومت انقرہ کے ایک کونے میں واقع ایک ہزار کمروں پر مشتمل قصر صدارت سے ترکی کے اقتصادی، سلامتی، ملکی اور بین الاقوامی امور پر پالیسی طے کرتے ہیں۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ ایردوآن حکومت نے اختلاف رائے کو دبایا، حقوق پامال کیے اور عدالتی نظام کواپنے زیر اثر لایا۔ اس الزام کی تردید کرتے ہوئے ترک حکام کا کہنا ہے کہ انہوں نے 2016ء میں حکومت کے خلاف بغاوت کی کوشش سمیت سکیورٹی کے منفرد نوعیت کے خطرات کے پیش نظر شہریوں کو تحفظ فراہم کیا ہے۔
اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ ایردوآن کی جانب سے کم شرح سود کے مطالبات نے گزشتہ سال ترکی میں افراط زر کی شرح کو چوبیس سالوں کی بلند ترین سطح یعنی 85 فیصد تک پہنچایا اور گزشتہ دہائی کے دوران لیرا ڈالر کے مقابلے میں اپنی قدر کے دسویں حصے پر آ گیا۔
ترکی کا بین الاقوامی سٹیج پر کردار
ایردوآن کی قیادت میں ترکی نے مشرق وسطیٰ اور اس سے باہر اپنی فوجی طاقت میں اضافہ کیا ، شام میں کے اندر چار فوجی مہمات انجام دیں، عراق کے اندر کرد عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائی کی اور لیبیا اور آذربائیجان کو فوجی مدد فراہم کی۔
ترکی نے علاقائی طاقتوں سعودی عرب، مصر، متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے ساتھ سفارتی جھڑپوں کا ایک سلسلہ بھی دیکھا، نیز مشرقی بحیرہ روم کی سمندری حدود پر یونان اور قبرص کے ساتھ کشیدگی بھی دیکھی۔
ایردوآن کی جانب سے روسی فضائی دفاعی نظام کی خریداری پر امریکہ کی اسلحے کی صنعت نے انقرہ حکومت کے خلاف پابندیاں عائد کیں۔ روسی صدر ولادیمیر پوٹن سے ایردوآن کی قربت نے ناقدین کو مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے لیے ترکی کی وابستگی پر سوال اٹھانے کا موقع دیا۔ سویڈن اور فن لینڈ کی جانب سے نیٹو کی رکنیت کی درخواستوں پر انقرہ کے اعتراضات نے بھی تناؤ میں اضافہ کیا۔
تاہم ترکی نے یوکرینی گندم کی برآمدات کے لیے ایک معاہدے کی بھی ثالثی کی، جو یوکرین جنگ کے خاتمے کی کوششوں میں ایردوآن کے ممکنہ کردار کی نشاندہی کرتی ہے۔ یہ واضح نہیں ہے کہ ان کا جانشین اس تشخص سے لطف اندوز ہو سکے گا، جو ایردوآن نے عالمی سطح پر بنایا ہے۔ یہی وہ نقطہ بھی ہے، جس پر ایردوآن اپنی انتخابی مہم کے دوران زور دیں گے۔
اپوزیشن کیا وعدہ کر رہی ہے؟
حزب اختلاف کی دو اہم جماعتوں سیکولر ریپبلکن پیپلز پارٹی (سی ایچ پی) اور مرکز دائیں بازو کی قوم پرست ایی پارٹی نے چار چھوٹی جماعتوں کے ساتھ اتحاد کیا ہے۔ اس اتحاد نے مرکزی بینک کی آزادی بحال کرنے اور ایردوآن کی غیر روایتی اقتصادی پالیسیوں کو تبدیل کرنے کا عہد کیا ہے۔ یہ اتحاد سابقہ پارلیمانی نظام کے حق میں ہے اور اس صدارتی نظام کو بھی ختم کرنے کی بات کرتا ہے۔ اس اتحاد نے اپنے ملک سے لاکھوں شامی مہاجرین کو واپس بھجوانے کا اعلان بھی کیا ہے۔
ایردوآن شامی صدر بشار الاسد کو گرانے کی ناکام کوششوں کی حمایت کر چکے ہیں جبکہ انہوں نے کم از کم چھتیس ملین شامی پناہ گزینوں کی میزبانی بھی کی جو ترکی میں اقتصادی مشکلات کے درمیان تیزی سے ناپسندیدہ ہو گئے۔
آئندہ کا سیاسی منظر نامہ ؟
ایردوآن کے دو دہائیوں پر مشتمل اقتدار کی پہلی دہائی میں ترکی نے اقتصادی ترقی دیکھی جبکہ باقی کے دس سالوں میں اس خوشحالی میں کمی دیکھی گئی ہے، جس نے ووٹروں میں ان کی مقبولیت کو متاثر کیا ہے۔
زلزلوں کے بعد ایک ابتدائی رائےعامہ میں بتایا گیا تھا کہ بڑے پیمانے پر تباہی کے باوجود ایردوآن بڑی حد تک اپنی حمایت برقرار رکھنے میں کامیاب رہے ہیں۔ لیکن تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اپنے امیدوار کے انتخاب میں تاخیر کے بعد باوجود متحدہ اپوزیشن ایردوآن کے لیے ایک بڑا چیلنج ثابت ہو سکتی ہے۔
انتخاب میں یہ بات کلیدی اہمیت کی حامل ہو گی کہ اپوزیشن پندرہ فیصد ووٹروں پر مشتمل کرد آبادی کی حمایت کس طرح حاصل کرتی ہے۔ کرد نواز پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (ایچ ڈی پی) کے شریک رہنما یہ اشارہ دے چکے ہیں کہ وہ ''واضح اور کھلی‘‘ بات چیت کے بعد کلیچ دار اولو کی حمایت کر سکتے ہیں۔
ش ر ⁄ ک م (روئٹرز)