ترکی کے حملے میں 19 شامی فوجی ہلاک
2 مارچ 2020ایک ایسے وقت جب شام اور ترکی کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہو رہا ہے، ترکی نے شام کے صوبہ ادلب میں شامی فوج کے ایک قافلے اور ایک فوجی چھاؤنی کو نشانہ بنایا جس میں بشار الاسد کی فوج کے 19 فوجی ہلاک ہوگئے۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اس حملے میں جبل الزاویہ میں فوجی قافلے کو نشانہ بنایا گيا جبکہ معارت النعمان میں فوجی اڈے پر حملہ ہوا۔ دونوں مقامات پر حملے کے لیے ڈرون کا استعمال کیا گيا۔
اتوار یکم مارچ کو ترکی نے شام کے دو جنگی طیاروں کو مار گرایا تھا جبکہ شام کے اہم اتحادی روس نے ترکی کو خبردار کیا ہے کہ وہ شام کی فضائی حدود میں ترکی کے فوجی طیاروں کی حفاظت کی ضمانت نہیں دے سکتا۔ گزشتہ ہفتے ادلب میں شامی فضائی حملے میں ترکی کے 33 فوجی ہلاک ہوگئے تھے اور اس حملے کے بعد سے ہی ادلب میں کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔ ان واقعات کے پیش نظر ترکی، شام اور اس کے اتحادی روس کے درمیان جنگ کے خدشات بڑھ گئے ہیں۔
ادھر شام نے ترکی کے تین ڈرون طیاروں کو مار گرانے کا دعوی کیا ہے۔ شام کے سرکاری ٹی وی نے شمال مغربی علاقے میں فضائی حدود بند کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس علاقے میں داخل ہونے والے کسی بھی جہاز کو دشمن کا جہاز مانا جائےگا جسے فوج کو مار گرانے کا حکم دیا گيا ہے۔
روس کی حمایت یافتہ شامی حکومت ادلب کو ترکی کے حمایت یافتہ باغیوں اور جہادیوں سے واپس لینے کیے کوشش میں ہے۔ شام میں گزشتہ کئی برس سے جاری خانہ جنگی کے نتیجے میں کئی علاقے باغیوں کے قبضے میں آگئے تھے جس میں سے صوبہ ادلب اب بھی باغیوں کے کنٹرول میں ہے جبکہ دیگر علاقوں پر شامی فوج نے روس کی مدد سے اپنا کنٹرول دوباہ حاصل کر رلیا ہے۔
ادلب میں شامی فوج کی کارروائی کے سبب لاکھوں لوگ بے گھر ہوچکے ہیں اور وہ سب ترکی کی سرحد پر جمع ہیں۔ ترکی کا کہنا ہے کہ اس کے پاس پہلے ہی سے بے گھر ہونے والے کئی لاکھ افراد پناہ لے چکے ہیں اور وہ مزید پناہ گزینوں کو لینے سے قاصر ہے۔
روس کے ساتھ سن 2018ء میں طے پانے والے ایک معاہدے کے تحت ترکی نے ادلب کے علاقوں میں نگرانی کی غرض سے بارہ فوجی چوکیاں قائم کی تھیں۔ ان فوجی چوکیوں کا بنیادی مقصد ادلب کی مسلسل خراب ہوتی صورت حال پر نگاہ رکھنا تھا۔ ان میں سے متعدد چوکیاں بشارالاسد کی فوج کے عسکری آپریشن میں رکاوٹ خیال کی جاتی ہیں۔ شامی فوجی طیاروں نے انہیں چوکیوں کو نشانہ بنایا تھا جس میں 33 ترک فوجی ہلاک ہوئے تھے۔ لیکن اب روس کا الزام ہے کہ ترکی نے ’دہشت گردوں‘ کی مدد کر کے مذکورہ معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے۔
ص ز / ا ب ا (اے ایف پی، اے پی)