1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایس۔400 میزائل کیا ہیں، ترکی انہیں کیوں حاصل کرنا چاہتا ہے؟

امتیاز احمد رومن گونچارکو
13 جولائی 2019

ترکی نیٹو کا وہ واحد رکن ملک ہوگا، جو روس کا جدید دفاعی میزائل سسٹم استعمال کرے گا۔ لیکن اس میزائل سسٹم میں ایسی کونسی خاص بات ہے کہ ترکی امریکا سے ٹکر لینے کے لیے تیار ہے؟ تفصیلات جانیے اس رپورٹ میں!

https://p.dw.com/p/3M1ht
Russisches Flugabwehrsystem S-400 für Türkei
تصویر: picture-alliance/dpa/Russian Defence Ministry

امریکا کی شدید مخالفت کے باوجود روس نے گزشتہ جمعے سے ترکی کو ایس۔400 دفاعی میزائلوں کی فراہمی شروع کر دی ہے۔ امریکا کو خدشہ ہے کہ اگر ترکی نے ففتھ جنریشن امریکی جنگی طیاروں ایف۔35  کے ساتھ ان روسی دفاعی میزائلوں کو استعمال کیا تو روس امریکی جنگی جہازوں سے متعلق خفیہ معلومات تک رسائی حاصل کر سکتا ہے۔ امریکا نے ترکی کو دھمکی دی تھی کہ اگر یہ میزائل خریدے تو اس کے خلاف پابندیاں عائد کر دی جائیں گی لیکن ترکی نے اس دھمکی کو نظرانداز کر دیا ہے۔ 

روسی ساختہ ایس۔400 میزائل جہاز شکن میزائل ہیں، جو چار سو کلومیٹر کے فاصلے تک اپنے ہدف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ستائیس کلومیٹر تک کی بلندی پر پرواز کرنے والے طیارے بھی اس کی رینج میں ہوتے ہیں۔ روس نے یہ دفاعی میزائل سسٹم سن دو ہزار سترہ میں متعارف کروایا تھا۔ اس میزائل سسٹم کی خاص بات یہ بھی ہے کہ یہ ایک موبائل سسٹم ہے، جسے گاڑیوں کے ذریعے کسی بھی علاقے تک لے جایا جا سکتا ہے اور ایک ہی وقت میں متعدد میزائلوں کو لانچ کیا جا سکتا ہے۔ روس ان میزائلوں کو فضائی دفاعی نظام کا ایک مرکزی جزو قرار دیتا ہے اور روسی فوج نے انہیں کریمیا، کیلنن گراڈ اوبلاست اور شام میں تعینات کر رکھا ہے۔

اس دفاعی میزائل نظام کو روس کی سرکاری اسلحہ ساز کمپنی 'الماز انتی‘ نے تیار کیا ہے اور یوکرائن میں روسی مداخلت کی وجہ سے یورپی یونین اور امریکا نے اس کمپنی کے خلاف پابندیاں بھی عائد کر رکھی ہیں۔

S-400 Flugabwehrraketenregiment auf der Krim im eingesetzt
تصویر: picturealliance/A. Pavlishak/TASS/dpa

 ایس۔400 میزائلوں کو جنگی طیارے، کروز میزائل، بیلیسٹک میزائل اور ڈرون طیاروں کو تباہ کرنے کے لیے تیار کیا گیا تھا۔ روسی میڈیا کے مطابق یہ دفاعی میزائل فرانس اور امریکا کے اپنے تیار کردہ دفاعی میزائل سسٹم سے بھی کہیں بہتر ہیں۔

برمنگھم یونیورسٹی سے وابستہ برطانوی فوجی امور کے ماہر رچرڈ کونولی کا ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ روس اور اس سے پہلے سوویت یونین ہمیشہ ہی میزائل ٹیکنالوجی میں سر فہرست رہے ہیں، '' اس کی وجہ امریکا اور مغرب کی طرف سے بہتر ہوائی جہازوں کی پیداوار تھی۔‘‘ 

ایس۔400  ایک لچکدار نظام ہے اور اس کے ذریعے کئی اقسام کے راکٹ استعمال کیے جا سکتے ہیں۔ رچرڈ کونولی کے مطابق جنگی میدان کے باہر بھی یہ بہت فائدہ مند ہیں اور یہ امریکی دفاعی نظام 'پیٹریاٹ ٹو‘  سے دو گنا سستے ہیں۔ 

امریکا کے لیے پیغام

اطلاعات کے مطابق ترکی نے یہ روسی دفاعی میزائل سسٹم دو اعشاریہ پانچ ارب ڈالر میں خریدا ہے۔ ترکی کے اس فیصلے کے پیچھے سیاسی محرکات بھی کارفرما ہو سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر انقرہ حکومت سمجھتی ہے کہ یہ میزائل امریکی جہازوں کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار کیے گئے ہیں۔ رچرڈ کونولی کے مطابق سن دو ہزار سولہ کی ترک فوجی بغاوت کے دوران صدارتی جہاز کا پیچھا باغی فوجیوں کے امریکی ساختہ ایف سولہ جنگی طیاروں نے ہی کیا تھا۔

ماسکو کے فوجی ماہر الیگزانڈر گولز کا بھی یہی خیال ہے کہ روسی ساختہ ایس۔400 دفاعی میزائل سسٹم کی خریداری ایک 'سیاسی فیصلہ‘ ہے۔ ان کے مطابق ترکی امریکا اور اپنے مغربی اتحادیوں کو یہ پیغام دینا چاہتا ہے کہ وہ اپنی دفاعی خودمختاری پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گا۔

Russland S-400 Triumf
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Malgavko

ترکی ابھی تک دنیا کا ایسا دوسرا ملک ہے، جسے چین کے بعد یہ روسی دفاعی میزائل نظام فراہم کیا جا رہا ہے۔ چین کو اس میزائل سسٹم کی فروخت کی خوشی اس وقت مدھم پڑ گئی تھی، جب سن دو ہزار سترہ میں یہ میزائل لے جانے والے بحری جہاز کو ایک حادثہ پیش آیا تھا۔ شدید طوفان کی وجہ سے بحری جہاز پر لدھے راکٹوں کو نقصان پہنچا تھا لیکن بعدازاں روس نے ان راکٹوں کا ازالہ کر دیا تھا۔

بھارت نے بھی روس سے پانچ ارب ڈالر کا ایک معاہدہ کر رکھا ہے اور ان میزائلوں کی ڈیلیوری کے انتظار میں ہے جبکہ چند خلیجی ممالک نے بھی ان روسی دفاعی میزائلوں کی خریداری میں دلچسپی کا اظہار کیا ہے۔

تاہم ماہرین اس دفاعی نظام کے حوالے سے خبردار بھی کرتے ہیں۔ شام میں اس دفاعی میزائل سسٹم کی تعیناتی کے باوجود ابھی تک کسی جنگ میں ان کا تجربہ نہیں کیا گیا۔ سن دو ہزار اٹھارہ میں امریکا نے شام میں متعدد ٹھکانوں کو ٹوم ہاک کروز میزائلوں سے نشانہ بنایا تھا۔ اس وقت روس ان کا استعمال کر سکتا تھا لیکن صدر پوٹن نے ایسا کرنے سے گریز کیا۔ دوسری جانب امریکا اپنے پیٹریاٹ دفاعی میزائلوں کو انیس سو اکانوے کی خلیجی جنگ میں استعمال کر چکا ہے۔

ایس چار سو میزائل سسٹم کو دشمن کے فضائی حملوں سے بچانے کے لیے روس ایک دوسرا درمیانے درجے کا دفاعی نظام 'پینٹسر ایس ون‘ استعمال کرتا ہے۔ یہ ابھی واضح نہیں ہے کہ آیا ترکی یہ نظام بھی روس سے خریدے گا۔

Russland S-400 Triumf
تصویر: picture-alliance/dpa/V. Nevar

ترکی کو روس سے یہ امید بھی ہے کہ وہ اسے اس دفاعی میزائلوں کی ٹیکنالوجی تک کچھ رسائی فراہم کرے گا۔ اطلاعات کے مطابق ایس۔400 کے متعدد پرزے ترک سرزمین پر تیار کیے جائیں گے۔ لیکن ماسکو کے فوجی ماہر الیگزانڈر گولز کے مطابق یہ بس ''علامتی پرزے ہوں گے۔ تین اقسام کے نٹ اینڈ بولٹ ترکی میں تیار ہوں گے۔‘‘ روسی ذرائع کی غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق ترکی نے ایس۔400 نظام کے الیکڑانک کوڈز اور سیٹنگز تک رسائی حاصل کرنے کی گزارش کی تھی، جسے مسترد کر دیا گیا تھا۔

نئی جنریشن کے روسی میزائل  

دوسری جانب روس اس دفاعی میزائل نظام کی اگلی نسل  S-500 تیار کرنے کے بالکل قریب ہے۔ اطلاعات کے مطابق سن دو ہزار بیس میں اس منصوبے پر سے پردہ اٹھا دیا جائے گا۔ روسی حکام کے مطابق ایس-500 کی رینج کہیں زیادہ ہو گی اور  وہ نچلی سطح میں گردش کرنے والے مصنوعی سیاروں تک کو بھی مار گرانے کی صلاحیت رکھتا ہو گا۔ ترکی اس نئے روسی دفاعی میزائل سسٹم کی تیاری میں بھی ترکی روس کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہتا ہے۔