ترکی یورپ سے مہاجرین کے معاہدے پر نظر ثانی کرے گا
14 مارچ 2017
ترک سرکاری ميڈيا نے يورپی يونين سے متعلق امور کے نگران وزير عمر چيلیک کے حوالے سے لکھا ہے کہ انقرہ حکومت کو مہاجرين کو يورپی يونين سے دور رکھنے يا ان کی يورپ کی طرف ہجرت محدود کرنے سے متعلق معاہدے پر نظر ثانی کرنی چاہيے۔ ان کا اشارہ گزشتہ برس مارچ ميں ترکی اور يورپی يونين کے مابين اس معاہدے کی طرف تھا، جس کو حتمی شکل ديے جانے پر چند مغربی يورپی ملکوں نے اسے ايک اچھی پيش رفت قرار ديا تھا، مشرقی يورپی رياستوں کو اس پر اعتراضات تھے جب کہ انسانی حقوق کے لیے سرگرم تنظيموں نے اسے کڑی تنقيد کا نشانہ بنايا تھا۔ ترک وزير عمر چیلیک نے يہ بيان اسی ہفتے کے آغاز پر پير کو ديا تھا۔
دريں اثناء گزشتہ روز ہی شائع ہونے والی ايک رپورٹ کے مطابق سن 2016 ميں جرمن چانسلر انگيلا ميرکل اور ڈچ وزير اعظم مارک رُٹے نے سالانہ بنيادوں پر ڈھائی لاکھ شامی تارکين وطن کو پناہ فراہم کرنے سے متعلق انقرہ حکومت کے ساتھ ايک سمجھوتے پر اتفاق کيا تھا۔ اس وقت انقرہ کی جانب سے سامنے والی تجاويز، رکن ممالک کے ليے ایک نئی پيش رفت تھی تاہم جرمن اخبار ’ڈی ويلٹ‘ کی تيرہ مارچ کو شائع ہونے والی ايک رپورٹ کے مطابق دراصل يہ بات جرمن، ترک اور ڈچ اعلیٰ قيادت کے مابين پہلے ہی طے ہو چکی تھی۔ جرمن چانسلر انگيلا ميرکل، ڈچ وزير اعظم مارک رُٹے اور ترک وزير اعظم احمد چاوش اولو نے سمٹ کے انعقاد سے ايک روز قبل چھ مارچ کو ايک ملاقات ميں اس ڈيل کی تفصيلات طے کی تھيں۔ ’ڈی ويلٹ‘ کے مطابق رُٹے اور ميرکل نے يہ حامی بھری تھی کہ يورپ سالانہ بنيادوں پر ترکی ميں مقيم ڈيڑھ تا ڈھائی لاکھ شامی مہاجرين کو پناہ دے گا۔
سمٹ کے اختتام پر جس ڈيل پر حتمی سمجھوتہ طے پايا تھا، اس کی شرائط ميں البتہ يہ بات واضح تھی کہ معاہدے پر عملدرآمد کے آغاز کے بعد يورپ پہنچنے والے ہر ايک مہاجر کی ترکی بدری کے بدلے ترکی ميں مقيم ايک شامی مہاجر کو يورپ ميں پناہ دی جائے گی۔ فريقين نے اس پر بھی اتفاق کيا تھا کہ سن 2015 ميں طے شدہ کوٹے پر عملدرآمد کو يقينی بنايا جائے گا۔
تاحال اس تازہ پيش رفت پر زيادہ رد عمل سامنے نہيں آيا ہے۔ ترکی اور يورپی يونين کے مابين جاری کچھاؤ کے اثرات مہاجرين سے متعلق ڈيل پر اثر انداز ہو سکتے ہيں۔