تعلیم، اقوام متحدہ کا اہم ہزاریہ ہدف
21 جنوری 2009نئی صدی کے آغاز پر ستمبر دو ہزار میں دنیاکو درپیش مسائل کا جائزہ لینے اور ان پر قابو پانے کے لئے اقوام متحدہ کے ایک انتہائی اہم اجلاس ہوا۔جسے میلینیئم سمٹ کا نام دیا گیا۔ اس اجلاس میں دنیا کے 189 ملکوں کے رہنماؤں نے ایک مشترکہ اعلانیہ جاری کیا۔ جسے بنیاد بناتے ہوئے سال 2001 میں اقوام متحدہ نے 2015 تک دنیا کو آٹھ بڑے مسائل سے نجات دلانےکے لئے اہداف مقرر کئے۔ ان اہداف کو ہزاریہ اہداف یا میلینیئم گولز کا نام دیا گیا۔
پاکستان میں لازمی پرائمری تعلیم کے لئے پنچاب اور سندھ حکومت کی جانب سے مختلف پروگرام شروع کئے گئے جس سے کسی حد تک بہتری بھی آئی ہے مگر تعلیم کے حوالے سے کام کرنے والی تنظیموں کے مطابق پاکستان میں لازمی پرائمری تعلیم یعنی یونیورسل ایجوکیشن کا ہدف حاصل کرنے کا خواب ابھی تک خواب ہی ہے۔
پاکستان کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں تعلیم کے شعبے میں مجموعی قومی پیداوار یا جی ڈی پی کا قلیل ترین حصہ خرچ کیا جاتا ہے اور اس کا واضح ثبوت وہ سرکاری و غیر سرکاری اعداد و شمار ہیں جن کے مطابق 1947ء میں آزادی کے بعد سے لے کر سن 2000ء تک تعلیم پر جی ڈی پی کا ایک فیصدسے بھی کم حصہ خرچ کیا گیا ، تاہم ستمبر2001ء میں اقوام متحدہ کی طرف سے نئے ہزاریئے کے لئے جن آٹھ ترقیاتی اہداف یعنی میلینئم ڈویلپمنٹ گولز کا تعین کیا گیا ہے ان میں بنیادی تعلیم کا یکساں حصول سرفہرست ہے جس کے مطابق سن2015ء تک چھوٹی عمر کے تمام بچے بنیادی تعلیمی نصاب یعنی پرائمری کورس مکمل کرنے کے قابل ہوں گے۔ اقوام متحدہ کے ان اہداف کے حصول اور اندرون ملک ناقدین کے پرزور اصرار پر حکومت پاکستان کو تعلیمی بجٹ میں بتدریج اضافہ کرنا پڑا جو اب مجموعی قومی پیداوار کاتقریباً اڑھائی فیصد بنتا ہے ۔ لیکن ماہرین تعلیم کے مطابق انتظامی بے قاعدگیوں اور نا اہلی کے سبب مختص کی گئی رقم کا بہت ہی قلیل حصہ تعلیم کی بہتری کے لئے خرچ ہو پاتا ہے۔
اس بارے میں ممتاز ماہر تعلیم ڈاکٹر اے ایچ نیئر کا کہنا ہے تعلیمی بجٹ کا نامناسب استعمال حکومتی پالیسیوں میں عدم تسلسل ، ناقص معیار تعلیم اور شعور و آگاہی میں کمی کے سبب ملک کی نصف آبادی ناخواندہ ہے جس میں اکثریت خواتین کی ہے۔ ڈاکٹر نیئر کے مطابق گزشتہ چند سالوں میں اقوام متحدہ کی بدولت پاکستان میں پرائمری سکول کی سطح پر بچوں کے اندراج کی شرح میں کچھ بہتری دیکھنے میں آئی ہے ۔ لیکن بقول ان کے آٹھ سالوں میں 50 فیصد سے کم شرح اندراج کو قابل ذکر ترقی نہیں کہا جا سکتا۔
دوسری جانب اگر زمینی حقائق کا جائزہ لیا جائے تو اب بھی ملک کے طول و عرض میں لاکھوں بچے اور بچیاں تعلیم تک رسائی کے بنیادی حق سے محروم ہیں۔ صرف دارالحکومت اسلام آباد میں ہی دیکھا جائے تو سکول جانے کی عمر کے ہزاروں بچے ہاتھوں میں کتابوں کی جگہ اوزار لئے گاڑیوں کی مرمت کا کام کرتے نظر آئیں گے ۔ ان میں سے اکثر بچوں کوان کے اصل ناموں کی بجائے چھوٹے کے نام سے جانااور پکارا جاتاہے۔
اس صورتحال میں مذہبی مدارس ایک ایسا ذریعہ تعلیم ہیں جہاں بچوں کے اندراج میں آئے روز بہتری آ رہی ہے ۔ ایک سروے کے مطابق اس وقت ملک بھر میں مدارس کی تعداد 20 ہزار سے زائد ہے جہاں لاکھوں طلباء زیر تعلیم ہیں۔ ایسے ہی ایک دینی مدرسے جامعہ نظریہ کے مہتمم صاحبزادہ حسیب اسحاق نظیری نے بچوں کے دینی مدارس میں داخلے کے رجحان کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ مدارس میں دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ عام سکولوں کا نصاب بھی پڑھایا جاتا ہے۔ اسکے علاوہ غریب طلبہ کے لئےمفت رہائش اور خوراک کی فراہمی کی سہولت بھی اس رجحان میں اضافے کا سبب ہے۔
وفاقی وزیر تعلیم میر ہزار خان بجارانی پاکستان کے تعلیمی نظام میں مختلف خامیوں کو تسلیم کرتے ہوئے جلد نئی مربوط تعلیمی پالیسی لانے کا ارادہ رکھتے ہیں ڈوئچے ویلے کے ساتھ انٹرویو میں وزیر تعلیم میر ہزار خان نے اس عزم کا اظہار بھی کیا کہ وہ موجودہ اقتصادی بحران اور خراب مالی حالات کے باوجوداقوام متحدہ کے دیئے گئے ہدف کے تحت ملک کے تعلیم سے محروم تمام بچوں خصوصاً چھوٹی بچیوں کو بنیادی تعلیم کا حق ضرور مہیا کریں گے۔
مبصرین کے مطابق میلینئم ترقیاتی اہداف کا حصول صرف سنجیدہ اور مربوط حکومتی اقدامات کے ذریعے ہی ممکن ہے خصوصاً بنیادی تعلیم کی فراہمی پر توجہ دے کر ملک سے غربت بے روزگاری ، جہالت اور شدت پسندی کا ہمیشہ کے لئے خاتمہ ممکن بنایا جا سکتا ہے۔