’تمام خواتین‘ کے ختنے کروائے جائیں، روسی مفتی
19 اگست 2016روسی خبر رساں ادارے انٹرفیکس کے مطابق اسماعیل بیردیف شمالی قفقاز کے نامور مفتی ہیں اور ان کا کہنا ہے، ’’تمام خواتین کے ختنے ہونے چاہییں تاکہ اس زمین سے اخلاقی زوال کا خاتمہ ہو سکے۔‘‘ اس مفتی کا مزید کہنا تھا، ’’خواتین کی جنسیت کو کم کرنے کی انتہائی ضرورت ہے اور یہ بھی بہت اچھا ہو گا، اگر تمام خواتین کے ختنے کر دیے جائیں۔ خالق نے خواتین کو اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ بچے پیدا اور ان کی پرورش کر سکیں اور ختنوں کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے کہ خواتین میں بچے پیدا کرنے کی صلاحیت کم ہو جاتی ہے یا وہ ایسا نہیں کر سکتیں۔‘‘
دوسری جانب عالمی ادارہٴ صحت کا کہنا ہے کہ خواتین کے ختنے کرنے سے بچے کی پیدائش میں پیچیدگیاں پیدا ہو سکتی ہیں اور پیدا ہونے والے بچے کی ہلاکت کا بھی ڈر رہتا ہے۔ اقوام متحدہ نے خواتین کے ختنے کرنے کے عمل کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے دنیا سے اس عمل کے خاتمے کی اپیل کی ہے۔ عالمی ادارہٴ صحت کے تخمینوں کے مطابق دنیا بھر میں دو سو ملین سے زائد لڑکیوں اور عورتوں کے ختنے کیے گئے ہیں۔
خواتین کے ختنے بچیوں کی پیدائش کے بعد سے لے کر پندرہ برس کی عمر تک کیے جاتے ہیں اور اس عمل میں خواتین کے بیرونی اعضائے تولید (جینی ٹلز) مکمل یا پھر جزوی طور پر ہٹا دیے جاتے ہیں۔
مفتی اسماعیل کا یہ بیان غیر سرکاری تنظیم روسی جسٹس انیشی ایٹو (آر جے آئی) کی اس رپورٹ کے جواب میں سامنے آیا ہے، جس کے مطابق داغستان کے بعض پہاڑی علاقوں میں خواتین کے ختنے کرنا معمول کی بات ہے۔ داغستان شمالی قفقاز کا وہ علاقہ ہے، جو جارجیا اور آذربائیجان کے قریب واقع ہے۔
سوشل میڈیا پر شدید رد عمل کے بعد مفتی اسماعیل نے اس بیان سے دوری اختیار کر لی ہے۔ ان کے تازہ بیان کے مطابق ان کا یہ تبصرہ ایک مذاق کے طور پر تھا اور وہ تمام خواتین کے ختنے کرنے کی وکالت نہیں کرتے۔
روسی آرتھوڈوکس چرچ کی حمایت
تاہم مفتی اسماعیل کے اس بیان کی حمایت روسی روسی آرتھوڈوکس چرچ کے اعلیٰ پادری ویسوُلود چپلن کی طرف سے بھی کی گئی ہے۔ انہوں نے اپنے فیس بک اکاؤنٹ پر لکھا ہے، ’’میری ہمدردیاں مفتی کے ساتھ ہیں۔ میں امید کرتا ہوں کہ مفتی صاحب اپنے رائے نہیں بدلیں گے کیوں کہ اب ان کے خلاف (ناقدین کی) مذمتی چیخ و پکار کا سلسلہ شروع ہو جائے گا۔‘‘
تاہم اس پادری نے یہ بھی کہا ہے کہ مفتی نے ’’اپنے وقت کی قابل عزت روایت کی بات کی ہے، جسے وہاں کی زیادہ تر خواتین پسند کرتی ہیں۔‘‘ انہوں نے مزید لکھا ہے، ’’نظريہٴ حقوقِ نسواں یا نِسوانيت اکیسویں صدی کا جھوٹ ہے۔ تاہم آرتھووڈکس خواتین کو ختنے کروانے کی ضرورت نہیں ہے کیوں کہ وہ ویسے بھی نافرمان نہیں ہیں۔‘‘
روسی مسلمانوں کی طرف سے مذمت
تاہم اسلام میں خواتین کے ختنے کرنے کے حوالے سے کوئی بھی مذہبی روایات یا قانون موجود نہیں ہے اور یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر کی بڑی اسلامی تنظیمیں اس عمل کی مذمت کرتی ہیں۔ روس میں مسلمانوں کی روحانی کونسل کے سینیئر مفتی رُسلان عباسوف کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ یہ قبل از اسلام کی روایت ہے اور اس کا مذہب سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔
تاہم آر جے آئی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ داغستان کے دور دراز کے پہاڑی علاقوں میں خواتین کے ختنے کروائے جانے کو مکمل معاشرتی حمایت حاصل ہے اور وہاں بچیوں کے تین برس کی عمر سے پہلے ہی ختنے کر دیے جاتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق ایسا وہ خواتین یا مرد کر رہے ہوتے ہیں، جن کے پاس نہ تو کوئی میڈیکل ٹریننگ ہے اور نہ ہی کوئی مناسب طبی سامان۔ وہ گھروں میں استعمال ہونے والی عام قینچی یا پھر چاقو کے ساتھ ساتھ عام تیل استعمال کرتے ہیں۔