’تيس مئی کو ملک بدر، تين جون کو کابل دھماکے ميں ہلاک‘
15 جون 2017يورپی ملک سويڈن سے تيس مئی کو بيس افغان تارکين وطن کے ايک گروپ کو ملک بدر کر کے افغان دارالحکومت کابل روانہ کر ديا گيا تھا۔ انہی ميں ايک نوجوان تارک وطن ايسا بھی تھا، جو کابل ميں حکومت مخالف مظاہروں کے دوران ہلاک ہونے والے ايک شخص کے جنازے ميں شريک تھا کہ وہاں تين جون کو ہونے والے تازہ بم حملے ميں وہ ہلاک ہو گيا۔ ’ہيومن رائٹس واچ‘ نے يورپی ممالک پر زور ديا ہے کہ افغانستان کو ہر گز ’محفوظ‘ ملک نہ سمجھا جائے اور افغان مہاجرين کے ملک بدری کو فوری طور پر روکا جائے۔
يورپی يونين کے رکن ممالک سے افغان تارکين وطن کی ملک بدری ايک عرصے سے کافی متنازعہ معاملہ رہا ہے۔ کابل ميں اس ماہ کے آغاز پر بم دھماکوں کی تازہ لہر کے بعد يورپی حکام پر تنقيد مزيد بڑھ گئی ہے اور کئی حلقوں سے ملک بدرياں روکنے کے مطالبات سامنے آ رہے ہيں۔ اکتيس مئی کو کابل کے سفارتی علاقے ميں جرمن ایمبيسی کے قريب ہونے والے ٹرک بم حملے ميں ڈيڑھ سو سے زائد افراد ہلاک جب کہ سينکڑوں ديگر زخمی ہو گئے تھے۔ پھر اس حملے کی مذمت اور سلامتی کی ابتر صورتحال کے سبب ہونے والے حکومت مخالف مظاہرے ميں قانون نافذ کرنے والوں اور مظاہرين کے مابين جھڑپ کے نتيجے ميں بھی چار افراد کی ہلاکت ہوئی۔ بعد ازاں تين جون کے روز ايک جنازے کو نشانہ بنايا گيا، جس ميں بھی سات افراد لقمہ اجل بن گئے۔ ان حملوں کے نتيجے ميں داخلی سطح پر افغان حکومت کافی دباؤ کا شکار ہے۔
کابل ميں ان حملوں کے بعد جرمنی نے اپنے ہاں سے افغان تارکين وطن کی ملک بدری فی الحال روک دی ہے۔ ہيومن رائٹس واچ نے چودہ جون کو جاری کردہ اپنے بيان ميں ديگر يورپی رياستوں پر زور دے کر کہا ہے کہ وہ بھی جرمنی کے نقش و قدم پر چلتے ہوئے افغان مہاجرين کی ملک بدری روکيں۔ بيان ميں کہا گيا ہے، ’’کابل مہاجرين کے ليے محفوظ مقام ہے، کے غلط تاثر کے درست ہونے کے ليے مزيد اموات کا انتظار نہيں کيا جانا چاہيے۔‘‘
افغانستان کو پہلے ہی سياسی عدم استحکام، غربت اور بے روزگاری جيسے مسائل کا سامنا ہے۔ ايسے ميں داخلی سطح پر بے گھر ہو جانے والوں کی بہت بڑی تعداد اور پھر ايران، پاکستان اور يورپ سے افغان باشندوں کی ملک بدری، حکام کے ليے مسائل ميں مزيد اضافے کا سبب بن رہی ہے۔