تھائی لینڈ میں حالات بدستور کشیدہ
7 مئی 2010چند روز قبل ایسا دکھائی دیتا تھا کہ سرخ شرٹس مظاہرین اور حکومت کے درمیان مذاکرات سے کوئی مثبت صورت سامنے آئے گی، لیکن اب ایسا لگ رہا ہے کہ یہ مذاکراتی عمل بھی پیچیدگیوں کا شکار ہو رہا ہے۔ نئے انتخابات کے مطالبے پر وزیر اعظم ابھیسیت وجے جیوا نے چودہ نومبر کی تاریخ کا اعلان کیا تو سرخ شرٹس مظاہرین نے کہا کہ وزیر اعظم الیکشن کی تاریخ کا اعلان کرنے کے مجاز نہیں۔ بعد میں تھائی وزیر اعظم وجے جیوا نے ستمبر کے دوسرے حصے میں پارلیمنٹ تحلیل کرنے کا عندیہ دیا تو بینکاک میں دھرنے پر بیٹھے مظاہرین نے کہا کہ وہ جلد انتخابات کے متمنی ہیں۔
بینکاک کے انتہائی اہم کاروباری مرکز میں متحدہ محاذ برائے جمہوریت کے ہزاروں مظاہرین گزشتہ ایک ماہ سے دھرنا دئے ہوئے ہیں۔ اس باعث کاروباری سرگرمیاں تقریباً ٹھپ ہو کر رہ گئی ہیں۔ جمعرات کو بھی تھائی لینڈ کے بازار حصص میں مندی کا رجحان غالب نظر آیا۔ اس کی وجہ بات چیت کے عمل میں تازہ تعطل بتایا جا رہا ہے۔ جب مذاکراتی عمل میں تھوڑی پیش رفت ہوئی تھی تو تھائی مالی منڈیوں میں حصص کی قیمتوں میں تیزی سے اضافہ دیکھا گیا تھا۔
اپوزیشن مظاہرین کے مرکزی رہنماوٴں میں سے ایک لیڈر نتوات سائکوا کا کہنا ہے کہ ابھی وزیر اعظم کی تجاویز کو قبول کرنے میں مسائل درپیش ہیں۔ یہ مظاہرین کالعدم سیاسی لیڈروں کے لئے ’ایمنسٹی‘ یعنی عام معافی کی بھی خواہش رکھتے ہیں۔ جواباً ریڈ شرٹس مظاہرین کے مخالف زرد شرٹس والوں کا کہنا ہے کہ ’’ایمنسٹی کا مطلب دہشت گردوں کو معافی دینا ہے۔‘‘ غرض یہ کہ تھائی سیاسی منظر نامہ بدستور گھمبیر ہے اور تھائی حکومت ’کراس روڈز‘ پر۔
دوسری جانب تھائی لینڈ میں برسات کی آمد آمد ہے۔ اس مناسبت سے مظاہرین نے بہت سارے لکڑی کے تختے دھرنے کے علاقے میں منگوانے شروع کردئے ہیں تاکہ بارش میں مظاہرین کو بہت زیادہ پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ یہ مظاہرین خیموں کے اندر رہ رہے ہیں۔ اسی طرح مظاہرین کے لئے مزید طہارت خانوں کا بھی بندو بست کر دیا گیا ہے تا کہ شہر میں گندگی اور غلاظت کو کنٹرول میں رکھا جا سکے۔
تھائی لینڈ میں سرخ شرٹس مظاہرین معزول اور جلا وطن وزیر اعظم تھاکسن شناوتراکے حامی ہیں اور ان کا تعلق یونائیٹڈ فرنٹ برائے ڈیموکریسی سے ہے۔ ان میں زیادہ تر ورکر کلاس کے لوگ شامل ہے۔ ان کے مخالفین زرد شرٹس والے پیپلز الائنس برائے ڈیموکریسی سے تعلق رکھتے ہیں اور شناوترا کے سخت مخالف ہیں۔
رپورٹ: عابد حسین
ادارت: گوہر نذیر گیلانی