تھائی لینڈ، پولیس کو مظاہرین کا مقابلہ نہ کرنے کا حکم
3 دسمبر 2013اس پیش رفت کے بعد ملک میں جاری تناؤ میں کمی کا امکان پیدا ہوا ہے۔ تاہم مظاہروں کی قیادت کرنے والے اپوزیشن رہنما نے اعلان کیا ہے کہ حکومت کے خاتمے کے لیے ان کی جدوجہد جاری رہے گی۔
تھائی لینڈ کے دارالحکومت بنکاک میں حکومت مخالف مظاہرین آج منگل کے روز نیشنل پولیس ہیڈ کوارٹرز میں داخل ہو گئے۔ اس امر کا اعلان اپوزیشن مظاہرین کی قیادت نے کیا۔ پولیس نے حکومت کی جانب سے مظاہرین کا مقابلہ نہ کرنے کے احکامات کے باعث راستے کی تمام رکاوٹیں پہلے ہی دور کر دی تھیں۔ اس لیے احتجاجی کارکن پولیس ہیڈ کوارٹرز میں بلا روک ٹوک داخل ہو گئے، جہاں متعین اہلکاروں نے مظاہرین سے ہاتھ ملائے۔ اس موقع پر پولیس نے ملکی جھنڈے لہرانے والے مظاہرین کو گلاب کے پھول بھی دیے۔ اس موقع پر مظاہرین پولیس کے ساتھ گھُل مل گئے اور کچھ دیر تک نعرہ بازی کرنے کے بعد پر امن طور پر منتشر ہو گئے۔
وزیراعظم یِنگ لک شناواترا کی جانب سے جاری ہونے والے ایک مختصر ٹیلی وژن پیغام میں ان میں کا کہنا تھا کہ ان کی خواہش ہے کہ سکیورٹی فورسز مظاہرین سے مقابلہ آرائی نہ کریں اور کسی قسم کا جانی نقصان نہ ہو۔ ان کا مزید کہنا تھا: ’’گو صورتحال میں اب بہتری آ رہی ہے لیکن ہمارے ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال کو ابھی معمول کی جانب لوٹنے میں کچھ وقت لگے گا۔‘‘
تھائی لینڈ میں مظاہرین گزشتہ کئی دنوں سے وزیر اعظم یِنگ لَک شناوترا کی حکومت کے خاتمے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اسی دوران تھائی لینڈ میں سیاسی بحران کی شدت کو دیکھتے ہوئے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے بنکاک حکومت اور اپوزیشن پر زور دیا ہے کہ وہ اپنے سیاسی اختلافات کو مذاکرات سے حل کریں اور تشدد کا راستہ ترک کر دیں۔
گزشتہ روز یعنی پیر دو دسمبر کو پولیس نے وزیراعظم کے گھر اور دیگر حکومتی دفاتر پر قبضے کی کوشش کرنے والے مظاہرین کے خلاف ربڑ کی گولیوں، آنسو گیس اور تیز دھار پانی کا استعمال کیا۔ تھائی لینڈ میں حکومت مخالف حالیہ مظاہروں کا سلسلہ گزشتہ ماہ اس وقت شروع ہوا جب حکومتی حمایت سے ایک ایمنسٹی بِل پارلیمان میں پیش کیا گیا جس کے نتیجے میں خاتون وزیر اعظم یِنگ لُک شناواترا کے بھائی اور سابق وزیر اعظم تھاکسن شناواترا، سزا کا سامنا کیے بغیر ملک میں واپس لوٹ سکتے ہیں۔ تھاکسن شناواترا کی حکومت 2006ء میں بدعنوانی کے الزامات پر ختم کر دی گئی تھی۔