تھین سین میانمار کے صدر منتخب
5 فروری 2011تھین سین کو جمعہ کو میانمار کے پارلیمنٹ میں ووٹنگ کے ذریعے منتخب کیا گیا۔ گزشتہ برس نومبر کے پارلیمانی انتخابات کو بین الاقوامی برادری نے شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ اپوزیشن گروپوں نے بھی انتخابی عمل میں بے ضابطگیوں کی شکایت کی تھی۔ ان میں فوج کی حمایت یافتہ پارٹی یو ایس ڈی پی کو تقریباﹰ اسّی فیصد نشستیں حاصل ہوئیں جبکہ ملک کے آئین کے مطابق ایک چوتھائی نشستیں فوج کے لیے مختص ہیں۔
پینسٹھ سالہ تھین سین ڈیفنس سروسز اکیڈمی سے تعلیم یافتہ ہیں۔ 2004ء میں سابق جنرل Khin Nyunt کے زوال کے بعد وہ سیکریٹری نمبر وَن بنے جبکہ 2007ء میں انہوں نے وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالا۔
میانمار میں ہیومن رائٹس ایجوکیشن انسٹی ٹیوٹ کے سربراہ انگ میو مِن کا کہنا ہے کہ صدر کے طور پر تھین سین کے تقرر سے ظاہر ہوتا ہے کہ برما میں اقتدار پر فوج کی گرفت کس قدر مضبوط ہے۔ انہوں نے کہا کہ انہیں اس پیش رفت پر ذرا بھی حیرت نہیں ہوئی۔
میو مِن نے کہا، ’انہیں فوج اور یوایس ڈی پی کی حمایت حاصل رہی ہے۔ اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ برما جمہوری ریاست نہیں ہے۔ انہوں نے صرف یونیفارم اتارا ہے، لیکن وہ خود نہیں بدلے۔ ان کی پالیسیاں وہی ہیں اور وہ فوج ہی کے نمائندے ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ایک نائب صدر فوج سے لیا گیا ہے جبکہ دوسرے کا انتخاب یو ایس ڈی پی سے کیا گیا ہے، اس سے بھی اقتدار پر فوج کی مضبوط گرفت کا پتہ چلتا ہے۔
میانمار کے آئین کے مطابق قومی سلامتی اور دفاعی کونسل پارلیمنٹ کی توثیق کے بعد صدر اور کمانڈر اِن چیف کی سربراہی میں ملک کا نظام چلائے گی۔
اپوزیشن رہنما آنگ سان سوچی نے اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں کہا تھا کہ اعلیٰ حکومتی عہدہ فوج کے سربراہ کا ہے، صدر کا نہیں۔
بعض تجزیہ کاروں کا قبل ازیں کہنا تھا کہ صدر کا عہدہ میانمار کے 78سالہ اعلیٰ فوجی جنرل تھان شوے خود سنبھالیں گے۔ تھائی لینڈ میں ہیومن رائٹس واچ کےنمائندے ڈیو میتھیسن نے اب بھی یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ جنرل شوے کا کردار پس منظر میں رہ کر کنٹرول سنبھالنے جیسا دکھائی دیتا ہے۔ انہوں نے کہا، ’وہ ریٹائرڈ ہوں یا ان کے پاس کوئی عہدہ ہو، فی الحال اقتدار کی باگ ڈور انہی کے ہاتھ میں ہے۔‘
رپورٹ: رون کوربن، بنکاک/ندیم گِل
ادارت: امتیاز احمد