1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

تہران کا جوہری تنازعہ، ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان معاہدہ طے

عاطف توقیر24 نومبر 2013

ایران اور عالمی طاقتوں نے اتوار کی صبح تہران کے متنازعہ جوہری پروگرام کے حوالے سے ایک معاہدے پر اتفاق کر لیا ہے۔ اس کے تحت ایران کے جوہری پروگرام پر قدغن لگے گی جب کہ ایران پر عائد پابندیوں میں کچھ نرمی کی جائے گی۔

https://p.dw.com/p/1AN5y
تصویر: Reuters

ایک طرف ایران اور دوسری جانب امریکا، برطانیہ، فرانس، جرمنی، روس اور چین کے درمیان چار روز سے زائد جاری رہنے والے مذاکرات کے بعد اتوار کی صبح یہ ڈیل طے پائی۔ اس معاہدے کے مطابق ایران اعلیٰ افزودہ یورینیم کی تیاری روک دے گا جب کہ اس کے بدلے میں اس پر عائد عالمی پابندیوں میں قدری نرمی کر دی جائے گی۔ اس نرمی سے ایران کو کئی بلین ڈالر مل پائیں گے۔ بتایا گیا ہے کہ اس ڈیل کے بعد غیرملکی بینکوں میں موجود اربوں ڈالر مالیت کے منجمد اثاثے ایران کو واپس مل پائیں گے اور دھاتوں، پیٹروکیمیکل اور ہوائی جہازوں کے پروزوں کے شعبے میں اس کے ساتھ دوبارہ تجارت ہو پائے گی۔

اس معاہدے کو گزشتہ ایک دہائی سے جاری اس تنازعے کے حل کے لیے پہلا قدم بھی قرار دیا جا رہا ہے۔

Gespräche mit Iran über Atomprogramm in Genf
فریقین بالآخرایک عبوری معاہدے پر متفق ہو گئے ہیںتصویر: Reuters

خبر رساں ادارے روئٹرز نے ایرانی وزیرخارجہ جواد ظریف کی جانب سے سماجی رابطے کی ویب سائٹس ٹوئٹر پر ارسال کردہ ایک بیان کا حوالہ دیا ہے، جس میں کہا گیا تھا۔ ’ہم ایک معاہدے پر پہنچ گئے۔‘ اس کی تصدیق فرانسیسی وزیرخارجہ لاراں فابیوس نے بھی کر دی ہے۔

امریکی وزیرخارجہ جان کیری ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان جاری مذاکرات میں فریقین کے درمیان پائے جانے والے اختلافات کو کم کرنے کے لیے ہفتے کو جنیوا پہنچے تھے۔ ان مذاکرات میں یہ طے کیا گیا کہ ایران اور مغربی ممالک اعتماد سازی کے لیے کیا اقدامات کریں ۔

مغربی طاقتوں کا ہدف تھا کہ ایران کی جوہری سرگرمیوں کو روکا جائے، تاہم ایران کا موقف تھا کہ اس کے یورینیم کی افزودگی کے حق کو تسلیم کیا جائے۔

واضح رہے کہ رواں برس ہونے والے انتخابات کے بعد صدر کا عہدہ سنبھالنے والے حسن روحانی نے کہا تھا کہ وہ ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان موجود اس مسئلے کا جلد حل چاہتے ہیں۔ ان کے عہدہ سنبھالتے ہی عالمی طاقتوں نے تہران کےجوہری تنازعے کے حل کے لیے سفارتی کوششوں کو تیز تر کر دیا تھا۔