جذبہ ایمانی سے لبریز ''ہجوم" کی جانب سے مسیحیوں کی املاک کو لگائی گئی آگ میں کچھ مسیحی بچوں کے وہ باجے بھی جل گئے، جو انہوں نے جشن آزادی میں اپنی خوشی کا اظہار کرنے کے لیے بڑی تگ و دو کے بعد خریدے تھے۔
ہماری چار فیصد مجبور و لاچار اقلیتوں کو اکثریت کی جانب سے جشن آزادی کا یہ تحفہ سر تسلیم خم قبول کرنا چاہیے۔ اس برس پاکستانیوں نے جشن آزادی خوب باجے بجا کر منائی کیونکہ اب صرف باجے بجانے کی ہی ہمیں آزادی میسر ہے۔
سولہ اگست 2023ء کو رونما ہونے والا واقعہ کوئی پہلا تو نہیں بلکہ ہمارے نامہ اعمال پر ایسی وحشیانہ فتوحات کی ایک لمبی فہرست ہے۔ چونکہ حس جمالیات سے ہمارا کیا لینا دینا سو ہمیں قوم بھی یک رنگی ہی چاہیے۔
آئیں قوم کو کچھ یاد دہانی کروا دوں۔
1997ء کا شانتی نگر، 2009ء کا گوجرہ، 2013ء کا جوزف کالونی اور پشاور چرچ کے بعد اب فیصل آباد و جڑانوالہ۔ چھوٹے موٹے واقعات کو تو ہم ویسے ہی خاطر میں نہیں لاتے۔
بشیر بدر نے ایسے ہی موقع پر فرمایا تھا!
لوگ ٹوٹ جاتے ہیں ایک گھر بنانے میں
تم ترس نہیں کھاتے بستیاں جلانے میں
لیکن اگر کسی کو غلط فہمی ہے کہ جڑانوالہ کے واقعات میں ملوث کسی ملزم کو سزا ملے گی تو یہ اس کی بھول اور سادگی ہے۔ ان ملزموں کی پشت پر ہمارا پورا نظام حکومت بالواسطہ طور پر کھڑا ہے۔
کیا آج تک رائے ونڈ کے مسیحی جوڑے کو بھٹی میں زندہ جلانے والے کسی ایک بھی ملزم کو سزا ہوئی؟ بالکل نہیں۔ یوحنا آباد، شانتی نگر جوزف کالونی اور گوجرہ کی بستیاں جلانے والوں کو عبرت کا نشانہ بنایا گیا؟ قطعی نہیں بلکہ جوزف کالونی کا مسیحی نوجوان آج بھی توہین مذہب کے الزام میں سزائے موت کی کوٹھڑی میں ہے۔
پنجاب میں مسیحی لوگوں کو توہین مذہب کی آڑ میں جنونی ہجوم آئے دن مسل کر رکھ دیتا ہے اور ان کے گرجا گھروں اور آبادیوں کو جلا کر راکھ کا ڈھیر بنا دیتا ہے۔ ایک واقعہ بھولنے کو نہیں آتا کہ اگلا رونما ہو جاتا ہے۔
19 جون 2014ء کا چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کا انسان دوست فیصلہ ہر ایسے واقعے پر سوائے خون کےآنسو بہانے کے اور کر بھی کیا سکتا ہے؟
یہ تمام شرمناک واقعات تو صرف ایک اقلیت کی کہانی ہے۔
آئیے ایک نظر ماضی پر ڈالتے ہیں کہ ہماری اقلیتوں کا اس سماج میں کیا کردار رہا اور ہم نے انہیں اس کا کیسا صلہ دیا۔
تقسیم سے قبل ہزاروں سال سے مختلف مذاہب کے لوگ اس دھرتی کے باسی تھے لیکن نفرت کی آندھی ایسی چلی کہ سب اُڑا کر لے گئی۔
کیا ایسا کوئی سوچ سکتا تھا کہ صدیوں سے ساتھ رہنے والے، جن کے غم اور خوشیاں بھی سانجھی تھیں یکایک ایک دوسرےکی جان کے دشمن اور خون کے پیاسے ہو جائیں؟ ایک دوسرے کی عزتوں کو تار تار اور جسموں کے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالیں؟پوری پوری بستیوں کو آگ میں جھونک دیں؟ ہاں یہ سب ہوا اور ایسا بدترین ہوا کہ اپنے بسے بسائے گھر، جائیداد، محلے، گلیاں اور دوست احباب چھوڑ چھاڑ کر کوئی اُس پار تو کوئی اِس پار آبسا۔ مسلمانوں اور ہندو سکھوں کے لیے دو الگ ملک وجود میں آگئے لیکن اس کے باوجود اُدھر بھی کروڑوں مسلمان رہ گئے اور پاکستان میں بسنے والے غیر مسلم بھی اسی دھرتی سے جڑے رہے۔
تقسیم کے وقت پاکستان کی کل آبادی کا% 23 حصہ غیر مسلموں پر مشتمل تھا، جن میں ہندو، سکھ، مسیحی، پارسی اور حتی کہ یہودی بھی شامل تھے۔
پاکستان کی ثقافتی اور معاشی ترقی میں غیر مسلموں کی گہری چھاپ آج بھی موجود ہے۔ سندھ کی ترقی میں پارسی، ہندو اور مسیحی کمیونٹی کا بہت نمایاں کردار رہا ہے ۔
پنجاب اور کے پی میں سکھ اور ہندو برادری نہ صرف کاروباری امور میں آگے تھے بلکہ ان کے فلاحی کارنامے ابھی بھی ان کی اس دھرتی سے محبت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔
پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کی پہلی کابینہ میں جوگندر ناتھ منڈل کو پہلا غیر مسلم وزیر قانون بنایا گیا جو کہ ایک خوش آئند قدم تھا۔ لیکن منڈل زیادہ عرصہ اس عہدے پر برقرار نہ رہ سکے اور نہ ہی ہندو برادری کامستقبل روشن ہو سکا۔
اگر بات سندھ کے شہر کراچی کی کی جائے تو اس کے پہلے میئر جمشید نسروانجی مہتا ایک پارسی تھے، جنہوں نے کراچی میں کشادہ سڑکیں، باغات اور پارکس بنائے اور سب سے اہم ماما پارسی اسکول کی بنیاد بھی انہی کے ہاتھوں ہوئی۔ جمشید نسروانجی کی خدمات کو کراچی کبھی بھلا نہیں سکتا۔
کراچی کی این ای ڈی یونیورسٹی جو نادر شاہ عیدالجی ڈنشا نے قائم کی تھی وہ بھی ایک پارسی تھے۔ انکل سریا ہسپتال ہو یا ڈاکٹر منوچہر کا لیاری میں آنکھوں کا ہسپتال۔ بہرام ڈی آواری کا آواری ٹاور جیسا فائیو اسٹار ہوٹل ہو یا سائرس مینولا کا میٹرو پولیٹن جیسا فن کا گہوارا ہوٹل۔ یہ سب پارسیوں نے ہی تعمیر کیے۔ پارسیوں کی سولجر بازار سے ایک متصل آبادی ہوا کرتی تھی، جہاں آج بھی خوبصورت بالکنی اور درختوں میں گھرے مکانات لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کرتے ہیں لیکن بیشتر مکان ویران پڑے ہیں۔
آج پارسیوں کی کراچی میں تعداد انگلیوں پر گنی جا سکتی ہیں۔ کراچی کو بہتر بنانے والے پارسی، چونکہ ایک خوشحال قوم تھی سو ایک مذہبی منافرت رکھنے والے ملک کا حصہ رہنے کے بجائے بیرون ملک سدھارنے میں اپنی عافیت جانی۔
لیکن سندھ کی ہندو اکثریت کے حالات زندگی دن بہ دن دگرگوں ہوتے چلے گئے ہیں۔ تقسیم کے وقت ہندو آبادی سندھ میں تقریباً چھبیس فیصد تھی۔ لیکن جس طرح سندھ میں ہندو کم عمر بچیوں اور نوجوان بیاہتا عورتوں کو اغوا کرکے جبراً مذہب تبدیل کروایا جا رہا ہے اور شادیاں کروائی جارہی ہیں، انصاف مانگنے پر سنگین نتائج کی دھمکی ان غریبوں کا منہ بند کر دیتی ہیں۔ اسی بنا پر خوف سے کئی خاندان ملک چھوڑ کر جانے پر مجبور ہو گئے۔
کوئی پوچھنے والا نہیں، کوئی انصاف دینے والا نہیں، دور دور تک کوئی نہیں جو ان غریب لاچاروں کے داد رسی کرے۔
اب سندھ میں ہندوؤں کی تعداد سکڑ کر تقریباً دو فیصد پر آگئی ہے۔ بظاہر وہ زندہ تو ہیں لیکن زندگی تو کب کی ان سے روٹھ چکی ہے۔
پنجاب پر نظر ڈالی جائے تو سر بہادر گنگا رام کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ لاہور کی عمارتیں آج بھی سر گنگارام کی عظمت کی گواہی دیتی ہیں۔ گنگا رام کے شہر لاہور پر بے شمار احسانات ہیں۔ لاہور میں سرگنگارام ہسپتال، ڈی اے وی کالج (موجودہ اسلامیہ کالج سول لائنز)، سرگنگارام گرلز اسکول (موجودہ لاہور کالج فارویمن)، ادارہ بحالی معذوراں اور دیگر بے شمار فلاحی ادارے اُنہوں نے اپنے ذاتی خرچ سے قائم کیے تھے۔
وہیں لالا لجپت رائے کا اپنی ماں گلاب دیوی کے نام پر لاہور میں قائم کردہ ہسپتال آج بھی موجود ہے۔کے پی اور بلوچستان میں بھی مسیحی، سکھ اور ہندو آج بھی آباد ہیں لیکن زندگی ان پر بہت محدود کر دی گئی ہے۔
پاکستان کے قبائلی علاقوں میں سکھوں کی بڑی آبادی تھی لیکن دہشت گردی کی وجہ سے انہوں نے پشاور، ننکانہ صاحب اور حسن ابدال کا رخ کیا۔ پچھلے چند سال میں سکھوں کے خلاف بھی تشدد کی ایک لہر دیکھنے میں آئی ہے، جس میں کئی سکھ تاجروں، حکیموں کو سر بازار گولیوں کا نشانہ بنا کر موت کے گھاٹ اتارا جا چکا ہے۔
کبھی اقلیتوں کی جلی ہوئی مقدس عمارتیں، کتابیں، ان کے ٹوٹے بوسیدہ گھروں کے بے وقعت اثاثوں کی راکھ ہمارے چہرے پر کالک مل جاتی ہے تو کبھی کسی کے خون سے ہمارا دامن تر ہوا جاتا ہے۔
وہ جتنی تھی غلامی میں میسر
ہمیں تم اتنی آزادی تو۔۔۔ دے دو
ہر لرزہ دینے والے سانحے کے بعد سوائے وہی فرسودہ ریاستی بیانات اور مگرمچھ کے آنسو!
ابھی چونکہ زخم تازہ ہے تو سوشل میڈیا پر دلوں کی بھڑاس نکالی جا رہی ہے پر مزید کتنے دن اور؟ زیادہ ہلکان نہ ہوں ہماری یادداشت بہت محدود ہے۔ اگلے برس پھر ہم جشن آزادی پر زیادہ شور مچانے والے باجے بجا کر خوش ہو رہے ہوں گے۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔