تین دہائیوں کا حکمران، چند افراد کی موجودگی میں دفن
10 دسمبر 2017خبر رساں ادارے روئٹرز نے یہ بات صالح کی سیاسی جماعت جنرل پیپلز کانگریس (GPC) کے ذرائع کے حوالے سے بتائی ہے۔ 75 سالہ علی عبداللہ صالح پیر چار دسمبر کو ایران نواز حوثی باغیوں کے ایک حملے میں مارے گئے تھے۔ حوثی باغیوں کے ساتھ مل کر سعودی سربراہی میں قائم اتحاد کے خلاف لڑنے والے صالح کی یہ ہلاکت ان کے اس اعلان کے بعد ہوئی جس میں انہوں نے حوثیوں کو چھوڑ کر سعودی اتحاد میں شامل ہونے کا عندیہ دیا تھا۔
صالح کی جماعت سے تعلق رکھنے والے ایک ذریعے نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر روئٹرز کو بتایا کہ حوثی باغیوں نے علی عبداللہ صالح کے رشتہ داروں میں سے 10 سے بھی کم افراد کو ان کی آخری رسومات میں شامل ہونے کی اجازت دی۔ انہیں ہفتہ اور اتوار 10 دسمبر کی درمیانی شب صنعاء میں دفن کیا گیا۔ اس ذریعے تاہم یہ نہیں بتایا کہ صالح کو کس مقام پر دفن کیا گیا۔
جی پی سی کے سیکرٹری جنرل عارف الذوکہ کو جو صالح کے ساتھ ہی مارے گئے تھے، ہفتے کے روز یمن کے صوبہ شبوا میں ان کے آبائی علاقے السعید میں دفن کیا گیا تھا۔ حوثی باغیوں نے ان کی لاش قبائلی سرداروں کے حوالے کر دی تھی۔
علی عبداللہ صالح کے رشتہ داروں کی طرف سے جمعرات نو دسمبر کو بتایا گیا تھا کہ انہوں نے حوثی باغیوں کی طرف سے عائد کردہ شرائط کے سبب صالح کے جسد خاکی کو وصول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ اطلاعات کے مطابق صالح کے رشتہ دار ان کی تدفین اس مسجد کے صحن میں کرنا چاہتے تھے جو انہوں نے صنعاء میں واقع صدارتی محل کے علاقے میں تعمیر کرائی تھی۔
علی عبداللہ صالح نے 33 برس تک یمن پر حکمرانی کی۔ تاہم انہیں 2012ء میں کئی ماہ تک جاری رہنے والے عوامی احتجاج کے بعد اپنے عہدے سے الگ ہونا پڑا تھا۔ مگر اس کے باوجود وہ یمن کی سب سے بڑی سیاسی جماعت جنرل پیپلز کانگریس کے سربراہ کے طور پر سیاست میں رہے۔ 2015ء میں انہوں نے صدر منصور ہادی کے خلاف ایران نواز حوثی باغیوں کے ساتھ اتحاد کر لیا۔ یمنی دارالحکومت پر حوثی باغیوں کے قبضے کے بعد سعودی سربراہی میں قائم عرب ممالک کے اتحاد نے وہاں فوجی کارروائیوں کا آغاز کیا تھا۔