تین یہودی نوجوانوں کی تلاش جاری، ایک فلسطینی لڑکا ہلاک
16 جون 2014اسرائیلی فوج نے مشتبہ طور پر اغوا ہونے والے تین یہودی نوجوانوں کی بازیابی کے لیے مغربی کنارے میں واقع شہر ہیبرون (الخلیل) میں گھر گھر تلاشی کا عمل شروع کر دیا ہے۔ اسی دوران ایک اسرائیلی فوجی کی فائرنگ سے احمد عرفات نامی انیس سالہ فلسطینی لڑکا ہلاک ہو گیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق یہ واقعہ مغربی کنارے میں رملہ کے قریب پیش آیا۔ فلسطینی میڈیکل ذرائع کے مطابق عرفات کو سینے میں گولی لگی ہے اور یہ واقعہ جلازون کے مہاجر کیمپ کے قریب پیش آیا۔ اسرائیلی فوج نے فوری طور پر اس واقعے کی تصدیق نہیں کی ہے۔
دوسری جانب اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو نے تین یہودی نوجوانوں کے ’اغوا‘ کا الزام فلسطینی تنظیم حماس پر لگایا ہے۔ حماس نے نیتن یاہو کے اس الزام کو لغو اور بے بنیاد قرار دیا ہے۔ اِس سے قبل اسرائیلی فوج نے مغربی کنارے سے 80 فلسطینیوں کو حراست میں لے لیا تھا۔ اس واقعے کے بعد نئی فلسطینی حکومت اور اسرائیل کے مابین کشیدگی میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ان نوجوانوں کی گمشدگی پر فلسطینی انتظامیہ کی جانب سے کہا گیا تھا کہ یہ اُس علاقے سے لاپتہ ہوئے، جس پر اسرائیل کا کنٹرول ہے۔
نیوز ایجنسی اے پی کے مطابق نیتن یاہو نے حماس پر الزام عائد کرتے ہوئے انگلش میں تقریر کی ہے، اس کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ بین الاقوامی برادری کی رائے کو نئی فلسطینی حکومت کے مخالف کیا جا سکے۔ اسرائیل حکومت حماس کو ایک ’دہشت گرد‘ تنظیم قرار دیتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ حماس اور فتح کی مشترکہ حکومت کی مخالفت کی جا رہی ہے۔ تاہم ابھی تک بین الاقوامی برادری نے نئی فلسطینی حکومت سے دور رہنے کے اسرائیلی مطالبے کو نظر انداز کیا ہے۔
اسرائیلی وزیراعظم کا کہنا تھا، ’’ حماس کو غیر مسلح کرنے کی اپنی بین الاقوامی ذمہ داری پوری کرنے کی بجائے صدر عباس نے حماس کو اپنا پارٹنر بنا لیا ہے۔ میرے خیال میں اس اتحاد کے خطرات اب سب پر واضح ہو جانے چاہئیں۔‘‘ تاہم نیتن یاہو نے اپنے دعوے کی حمایت میں کوئی ایک بھی ثبوت فراہم نہیں کیا۔ فلسطینی حکام نے اس اسرائیلی الزام کو مسترد کیا ہے۔ حماس نے بظاہر اس مبینہ اغوا کی تعریف کی ہے لیکن اس کی ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کیا ہے۔ اغوا ہونے والے یہودی لڑکوں کی عمریں سولہ سے انیس برس کے مابین ہیں اور وہ جمعرات کی رات ایک مذہبی اسکول سے واپسی پر غائب ہو گئے تھے۔