تیونس، مہدی جمعہ کو وزیر اعظم چن لیا گیا
15 دسمبر 2013خبر رساں ادارے روئٹرز نے تیونس سے ملنے والی رپورٹوں کے حوالے سے بتایا ہے کہ ہفتے کے دن النہضہ اور اپوزیشن اتحاد کے نمائندوں کے مابین ہونے والے حتمی مذاکرات میں انڈسٹری منسٹر مہدی جمعہ کو عبوری وزیر اعظم نامزد کر دیا گیا ہے۔ وہ ایک ٹیکنوکریٹ کابینہ تشکیل دیں گے، جو آئندہ برس الیکشن تک اپنی ذمہ داریاں نبھائے گی۔
عبوری وزیر اعظم کی نامزدگی اس معاہدے کا پہلا قدم قرار دیا جا رہا ہے، جس کے تحت اعتدال پسند اسلامی سیاسی جماعت النہضہ آئندہ کچھ ہفتوں میں اقتدار نئی حکومت کو منتقل کر دے گی۔ تیونس میں 2011ء میں شروع ہونے والے حکومت مخالف مظاہروں کے بعد ایک بحرانی صورتحال پیدا ہو گئی تھی۔
مطلق العنان صدر زین العابدین بن علی کی اقتدار سے بیدخلی کے بعد منعقد ہونے والے انتخابات میں اگرچہ النہضہ نے کامیابی حاصل کر لی تھی تاہم ملک کے لبرل اور سیکولر طبقوں کی طرف سے مذہب اسلام کے کردار پر ایک بحث شروع ہو گئی تھی، جس نے تیونس میں ایک نیا انتشار برپا کر دیا تھا۔ تيونس کا شمار عرب ممالک کی سب سے سيکولر اور لبرل رياستوں ميں ہوتا ہے۔
تیونس میں سیاسی بحران کے خاتمے کے لیے کئی ہفتوں سے جاری مذاکرات میں ملک کی اکیس سیاسی جماعتیں شریک تھیں۔ عوامی انقلاب کے بعد برسر اقتدار آنے والی النہضہ پارٹی نے ملکی سیاسی بحران کے خاتمے کے لیے گزشتہ جولائی میں حکومت سے الگ ہونے کا فیصلہ کیا تھا۔ تیونس میں رواں برس کے اوائل میں دو اپوزیشن رہنماؤں کے قتل کے بعد سے وہاں شدید تناؤ کی کیفیت برقرار ہے۔ حکومت نے قتل کی ان وارداتوں کا الزام شدت پسند اسلامی گروہوں پر عائد کیا تھا جب کہ حزب اختلاف نے قتل کی ذمہ داری النہضہ پر ڈالی تھی۔ اپوزیشن کا مؤقف ہے کہ شدت پسند اسلامی تنظیموں کے خلاف النہضہ کا رویہ انتہائی نرم ہے۔
مذاکراتی ٹیم UGTT کے سربراہ حسین عباس نے ہفتے کے دن مذاکرات کے بعد کہا، ’’مشکلات کے باوجود ہم مہدی جمعہ کے نام پر متفق ہو گئے ہیں۔ آئندہ حکومت کو غير سیاسی اور آزاد ہونا چاہیے، جس کا بنیادی مقصد انتخابات کا انعقاد ہو گا۔‘‘ النہضہ نے ان مذاکرات سے قبل ہی کہہ دیا تھا کہ وہ نئے وزیر اعظم کی نامزدگی کے بعد اقتدار سے الگ ہو جائے گی۔ بتایا گیا ہے کہ نئی عبوری حکومت اپنے دور اقتدار میں ملک کا نیا دستور بھی تیار کرے گی۔