تیونس، کابینہ میں ردوبدل کا فیصلہ
28 جنوری 2011جمعرات کی شب عبوری وزیراعظم محمد غنوشی نے اعلان کیا کہ وہ عوام کے جذبات کی قدر کرتے ہوئے اپنی کابینہ میں اہم تبدیلیاں کر رہے ہیں۔ انہوں نے دفاع، داخلہ، خارجہ اور خزانہ سمیت کُل بارہ اہم وزارتوں پر تعینات بن علی کے ساتھیوں کا ان کی متعلقہ وزارتوں سے الگ کرنے کا اعلان کیا، تاہم انہوں نے کہا کہ وہ بطورعبوری وزیر اعظم اپنے عہدے پر براجمان رہیں گے۔
اپنے نشریاتی خطاب میں محمد غنوشی نے یاسمین انقلاب کے حامیوں کو ایک مرتبہ پھر یہ یقین دہانی کروائی کہ موجودہ حکومت عبوری ہے اور یہ بہت جلد ملک میں جمہوریت کا قیام عمل میں لائے گی۔ انہوں نے کہا کہ ملک کو ترقی کی راہوں پر گامزن کرنے کے لیے وہ قابل افراد کو اپنی نئی کابینہ میں شامل کریں گے۔
محمد غنوشی کے اعلان سے قبل مفرور صدر بن علی کی حکومت کے ایک اہم رکن اور وزیر خارجہ Kamel Morjane نے اپنے عہدے سے الگ ہونے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ وہ ملکی مفاد میں یہ فیصلہ کر رہے ہیں۔ باسٹھ سالہ سیاستدان نے کہا،’ تیونس کے بہترین مفاد اور متحدہ حکومت کی حمایت کرتے ہوئے میں اپنےعہدے سے الگ ہو رہا ہوں۔‘
محمد غنوشی کی طرف سے اپنی کابینہ میں بڑے پیمانے پر ردوبدل کے اعلان کے بعد ملک کی مضبوط ترین ٹریڈ یونین UGTT نے اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ تاہم یونین کی طرف سے جاری کیے گئے ایک بیان میں وضاحت کی گئی ہے کہ وہ حکومت میں شامل ہونے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی۔
گزشتہ روز بھی تیونس میں ہزاروں مظاہرین احتجاج کرتے رہے۔ ان کا مطالبہ تھا کہ محمد غنوشی بھی اپنے عہدے سے الگ ہو جائیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جو شخص بن علی کی صدارت میں وزیر اعظم کے عہدے پر فائز رہتے ہوئے بدعنوانی کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھا سکا، وہ اب بھی کچھ نہیں کرسکے گا۔ محمد غنوشی نے عوام سے وعدہ کیا ہے کہ وہ ملک میں شفاف انتخابات کروانے کے بعد سیاست سے کنارہ کشی اختیار کر لیں گے۔
دوسری طرف تیونس حکام نے کینیڈا سے درخواست کی ہے کہ وہاں پناہ کے متلاشی بن علی کے برادر نسبتی Belhassen Trabelsi کو گرفتار کر لیا جائے۔ خبر رساں ادارے AFP کے مطابق بن علی کی اہلیہ لیلیٰ کا بڑا بھائی گزشتہ ہفتے ایک خصوصی طیارے کے ذریعے اپنی بیوی اور بچوں کے ہمراہ کینیڈا پہنچ گیا تھا۔
رپورٹ: عاطف بلوچ
ادارت: عدنان اسحاق