تیونس کی النہضہ پارٹی نے اپوزیشن کا مطالبہ ردّ کر دیا
16 اگست 2013النہضہ کے رہنما راشد غنوشی نے جمعرات کو صحافیوں سے گفتگو میں اپنی جماعت کا مؤقف دہراتے ہوئے کہا کہ وہ صرف اسلام پسند وزیر اعظم علی العریض کی سربراہی میں قومی اتحادی حکومت ہی قبول کریں گے۔
خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کے مطالبے موجودہ حالات سے مطابقت نہیں رکھتے۔ انہوں نے کہا: ’’اس سے انتقالِ اقتدار کا عمل متاثر ہو گا۔‘‘
راشد غنوشی کا مزید کہنا تھا کہ غیرمنتخب حکومت ملک کو بحران سے نہیں نکال سکے گی۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے اپوزیشن کا اسمبلی کی تحلیل کا مطالبہ بھی مسترد کر دیا۔
اسمبلی میں النہضہ کو اکثریت حاصل ہے جو اسے 2011ء میں آمریت پسند صدر زین العابدین کی اقتدار سے بے دخلی کے بعد ہونے والے انتخابات میں فتح کے ذریعے ملی تھی۔
اس اسمبلی کی ذمہ داری تھی کہ وہ ایک سال کے اندر اندر نیا آئین تشکیل دے، تاہم یہ ابھی تک صرف مسودہ ہی تیار کرنے میں کامیاب ہوئی ہے جو ترمیم کے بعد ووٹنگ کے لیے پیش کیا جا سکے گا۔
النہضہ دسمبر کے انتخابات تک قومی اتحادی حکومت کی تشکیل کی پیش کر چکی ہے۔ تاہم اپوزیشن کا مطالبہ ہے کہ عبوری دَور میں آزاد ماہرین پر مشتمل کابینہ نظام حکومت چلائے۔
تیونس کا یہ سیاسی بحران گزشتہ تین ہفتے سے جاری ہے۔ اپوزیشن اسلام پسندوں کی قیادت میں قائم حکومت کے خاتمے کا مطالبہ کر رہی ہے۔ اس مطالبے نے 25 جولائی کو اپوزیشن کے ایک رہنما محمد براہمی کے قتل کے بعد سر اٹھایا۔
جمعرات کو صحافیوں سے بات چیت میں غنوشی کا مزید کہنا تھا کہ مصر میں ہونے والی خونریزی تیونس میں مصری جنرل السیسی کا خواب دیکھنے والوں کے لیے ایک سبق ہے۔ انہوں نے اپوزیشن پر زور دیا کہ وہ مذاکرات شروع کرے۔
جرمن وزیر خارجہ گیڈو ویسٹر ویلے نے بھی تیونس کے دو روزہ دورے کے پہلے روز بدھ کو مصر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ جو مصر میں ہو رہا ہے وہ تیونس میں نہیں ہونا چاہیے۔ انہوں نے فریقن پر زور دیا تھا کہ وہ مذاکرات کی راہ اپنائیں۔
ویسٹر ویلے نے اس دورے میں تیونس کے وزیر خارجہ عثمان جراندی، وزیر اعظم علی العریض اور اپوزیشن کے نمائندوں سے ملاقاتیں کیں۔
ڈی پی اے کے مطابق ویسٹر ویلے تیونس میں فریقین کو ڈیڈ لاک توڑنے کے لیے بات چیت شروع کرنے پر قائل کرنے کی کوشش کے لیے وہاں گئے تھے۔ یہ بحران تیونس کی پہلے سے خستہ حال معیشت کو مزید پستی میں لے گیا ہے۔