تیونس کے 'داخلی معاملات میں مداخلت‘: امریکی سفیر طلب
30 جولائی 2022امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے تیونس میں جمہوریت کی صورت حال پر تشویش کا اظہار کیا تھا جس کے ردِ عمل میں تیونس کی وزارت خارجہ نے امریکی ناظم الامور کو جمعے کے روز طلب کر لیا۔
وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا کہ تیونس میں امریکہ کی سینیئر سفارت کار نتاشا فرانچسکی کو امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن اور تیونس کے لیے نامزد امریکی سفیر جوئے ہُڈ کے حالیہ بیانات کے بعد طلب کیا گیا۔
تیونس کے وزیر خارجہ عثمان الجرندی نے فرانچسکی کو بتایا کہ امریکی حکام کے بیانات ناقابل قبول اور 'ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت‘ ہیں۔
انہوں نے امریکی حکام کی تنقید پر 'حیرت‘ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مذکورہ بیانات تیونس میں جمہوریت کی صورت حال کی حقیقی عکاسی نہیں کرتے۔
اس ملاقات سے قبل عثمان الجرندی نے ملکی صدر قیس سعید سے ملاقات کی تھی جس میں صدر نے انہیں 'ملک کے داخلی معاملات میں کسی قسم کی مداخلت کو مسترد‘ کرنے کی ہدایت کی تھی۔
امریکی حکام نے کیا کہا تھا؟
امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے سن 2011ء کے انقلاب کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا، ''تیونس نے گزشتہ برس کے دوران جمہوری اصولوں میں خطرناک حد تک گراوٹ کا سامنا کیا اور 2011ء کے بعد سے تیونس کے عوام کی سخت محنت سے حاصل ہونے والے بہت سے فوائد کو پلٹ دیا۔‘‘
بلنکن نے ایک ٹویٹ میں لکھا، ''ایک جامع اور شفاف اصلاحاتی عمل تیونس کے ان لاکھوں لوگوں کا اعتماد بحال کرنے کے لیے ناگزیر ہے، جنہوں نے یا تو حالیہ ریفرنڈم میں حصہ نہیں لیا یا پھر نئے آئین کی مخالفت کی۔‘‘
ہُڈ نے رواں ہفتے بدھ کے روز سینیٹ کی خارجہ امور کی کمیٹی کی ایک سماعت میں بتایا تھا کہ تیونس نے حالیہ عرصے میں ''جمہوی اصولوں اور بنیادی آزادیوں میں خطرناک کمی کا سامنا کیا۔‘‘
امریکی حکام نے تیونس میں نئے آئین کے بارے میں کرائے گئے ریفرنڈم پر تنقید کی تھی، جس میں رواں ہفتے پیر کے روز 95 فیصد ووٹرز نے منظور کیا تھا۔ اس ریفرنڈم میں ٹرن آؤٹ صرف 30.5 فیصد رہا تھا۔
تیونس کا نیا آئین ملکی صدر کو تقریبا لامحدود اختیارات فراہم کرتا ہے۔
تیونسی صدر سعید نے گزشتہ برس جولائی میں ملکی پارلیمان کو تحلیل کر دیا تھا، جس کے بعد سے انہیں امریکی حکومت کی تنقید کا سامنا ہے۔
صدر قیس سعید نے ملکی عدلیہ اور انتخابی کمیشن کا کنٹرول بھی سنبھال لیا تھا اور کہا تھا کہ ان کا ملک ناقابل تسخیر ہے۔
ش ح/ ا ا (اے ایف پی، روئٹرز)