ثقافتی ورثہ کس طرح تباہی کا شکار ہے
26 اکتوبر 2015ابو صیر الملق نامی علاقے مصری دارالحکومت قاہرہ سے نوے کلومیٹر جنوب کی جانب واقع ہے۔ آثار قدیمہ کے جرمن ماہرین اوٹو روبن زون اور گیئورگ مؤلر نے بیسویں صدی کے آغاز میں اس علاقے میں ’’ نیکروپولس‘‘ یعنی مقبروں والے ایک قدیم قبرستان کی تلاش کا کام شروع کیا تھا۔ 1908ء میں کام ختم ہوتے ہی دریافت کی جانے والی قبروں کو دوبارہ بند کر دیا گیا۔ تاہم اب چوروں کے مختلف گروہوں نے اس مقام پر غیر قانونی طور پر کھدائی شروع کر رکھی ہے۔
آثار قدیمہ کی مصری ماہر مونیکا حنا کے مطابق ’’ابو صیر میں جگہ جگہ زمیں میں سوراخ دکھائی دیتے ہیں اور کنکر اور بجری ہر جانب پھیلی ہوئی ہے‘‘۔ انہوں نے مزید بتایا کہ اس دوران ان قبروں میں موجود نوادرات کا نوے فیصد لوٹ لیا گیا ہے۔ ’’چور ان نادر اشیاء کو فروخت کر کے بے پناہ منافع کما رہے ہیں‘‘۔
رپورٹوں کے مطابق گزشتہ پچیس برسوں سے ثقافتی ورثے کو چوری کر کے اسے فروخت کرنے کا یہ غیر قانونی کاروبار انتہائی فروغ پا چکا ہے۔ اس سے قبل بھی بہت سارے ممالک میں آثار قدیمہ کے مقامات کی غیر قانونی کھدائی کی جا چکی ہے تاہم مشرق وسطٰی اور افریقہ میں سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے جرائم پیشہ گروہوں اور دہشت گردوں کو ایک طرح کی کھلی چھٹی ملی ہوئی ہے۔ 2011ء کے بعد سے مصر میں چوری اور چھینے گئے نوادرات کا کاروبار دوگنا ہو گیا ہے۔ برلن کے ایک میوزیم کے ڈائریکٹر مارکس ہلگرٹ کہتے ہیں کہ عراق میں بھی گزشتہ پچیس برسوں سے نوادرات کو منظم انداز میں لوٹا جا رہا ہے۔
ماہرین کے مطابق جرائم پیشہ گروہ ہی نہیں اس کاروبار سے فائدہ نہیں اٹھا رہے بلکہ دہشت گرد بھی اس سے منسلک ہیں۔ ذرائع کے مطابق اسلامک اسٹیٹ کے شدت پسند مختلف عجائب گھروں کو تباہ کرنے کے دوران نوادرات کی ایک بڑی تعداد اپنے ساتھ لے گئے تھے۔