جاسوسی اسکینڈل، امریکا پر بڑھتا دباؤ
26 اکتوبر 2013اس طرح کے زیادہ تر انکشافات امریکی خفیہ ادارے نیشنل سکیورٹی ایجنسی این ایس اے کے سابق کنٹریکٹر ایڈورڈ سنوڈن نے کیے ہیں۔ خبر رساں ادارے روئٹرز سے باتیں کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ اس عالمی ادارے میں جرمنی اور برازیل کے سفارت کار اس قرارداد کے مسودے پر کام کر رہے ہیں اور یہ کہ یہ قرارداد 193 رکنی جنرل اسمبلی میں پیش کی جائے گی۔
ایک مغربی سفارت کار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’غالباً اس قررداد کو جنرل اسمبلی میں زبردست تائید و حمایت حاصل ہو گی کیونکہ این ایس اے کی جانب سے جاسوسی اُن میں سے کسی کو بھی پسند نہیں ہے‘۔ بتایا گیا ہے کہ اس قرارداد میں امریکا کا نام لے کر ذکر نہیں کیا جائے گا۔
پندرہ رکنی عالمی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے برعکس جنرل اسمبلی کی قراردادوں کی پابندی لازمی نہیں ہے تاہم جنرل اسمبلی کی قراردادیں وسیع تر بین الاقوامی حمایت کی وجہ سے بڑے پیمانے پر سیاسی اور اخلاقی اہمیت کی حامل ہوتی ہیں۔
امریکی وزارتِ خارجہ کی خاتون ترجمان جَین ساکی کے مطابق صدر باراک اوباما نے نگرانی کے طریقہء کار کی جانچ پڑتال کیے جانے کی ہدایات دی ہیں۔ خاتون ترجمان نے کہا کہ مستقبل میں بھی امریکا وہ ساری معلومات جمع کرنے کا سلسلہ جاری رکھے گا، جو امریکا ا ور اُس کے حلیفوں کی سلامتی کے لیے ضروری ہیں۔
برازیل کی صدر دلما روسیف اور جرمن چانسلر انگیلا میرکل دونوں ہی این ایس اے کی جانب سے وسیع پیمانے پر جاسوسی کی مذمت کر چکی ہیں۔ ا ن دنوں یورپ بھر میں ان خبروں پر شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے کہ این ایس اے نے نہ صرف فرانس میں ہزارہا ٹیلی فون گفتگوؤں کا ڈیٹا جمع کیا بلکہ جرمن چانسلر میرکل کے ذاتی موبائل فون کی بھی نگرانی کی۔
میرکل نے بدھ کو امریکی صدر اوباما کے ساتھ ٹیلیفون پر گفتگو میں کہا تھا کہ اس طرح کی جاسوسی ساتھی ممالک کے باہمی اتحاد کو مجروح کر سکتی ہے۔ بعد ازاں جمعرات کو میرکل نے مطالبہ کیا تھا کہ اس سال کے آخر تک واشنگٹن حکومت کو برلن اور پیرس حکومتوں کے ساتھ ’نو سپائنگ‘ یعنی کسی طرح کی جاسوسی نہ کرنے کا معاہدہ کرنا چاہیے۔ میرکل نے کہا تھا کہ اُنہیں اوباما کی جانب سے معذرت خواہانہ الفاظ کی نہیں بلکہ عملی اقدامات درکار ہیں۔
گزشتہ مہینے دلما روسیف بھی اقوام متحدہ کی سالانہ جنرل اسمبلی میں اپنے افتتاحی خطاب میں امریکا پر الزام عائد کیا تھا کہ وہ جاسوسی کرتے ہوئے، جس میں اُن کی ذاتی ای میل کی نگرانی بھی شامل ہے، انسانی حقوق اور بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کا مرتکب ہو رہا ہے۔ برازیل میں این ایس اے کی طرف سے جاسوسی ہی کی خبروں کے پیشِ نظر دلما روسیف نے اپنا رواں مہینے مجوزہ دورہء امریکا بھی منسوخ کر دیا تھا۔ ان حالات میں جرمن صدر یوآخم گاؤک نے کہا ہے کہ موجودہ حالات میں اس امر کا واضح طور پر احساس ہو رہا ہے کہ ایسے نئے ٹھوس اور مؤثر ضوابط کی ضرورت ہے، جو یہ طے کریں کہ کس چیز کی اجازت ہے اور کس کی نہیں۔
دریں اثناء جرمنی نے آئندہ ہفتے اپنے سرکردہ انٹیلیجنس نمائندوں کو واشنگٹن بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے، جو این ایس اے کے خلاف عائد کیے جانے والے الزامات کے لیے وائٹ ہاؤس سے وضاحت طلب کریں گے۔ جرمنی سے جانے والے اس وفد میں جرمنی کے خفیہ اداروں کے چوٹی کے اہلکار شامل ہوں گے۔
واضح رہے کہ رواں ہفتے اٹھائیس رکنی یورپی یونین کے رہنماؤں نے بھی برسلز میں اپنی سربراہ کانفرنس میں انٹیلیجنس معلومات جمع کرنے کے حوالے سے واشنگٹن حکومت کے ساتھ ایک نیا معاہدہ کرنے کی ضرورت پر زور دیا تھا۔ یہ معاہدہ طے کرنے کی ذمے داری جرمن چانسلر انگیلا میرکل اور فرانسیسی صدر فوانسوا اولانڈ کو سونپی گئی ہے۔ تاہم اسی دوران ان نئے انکشافات نے صورتِ حال کو مزید دھندلا دیا ہے کہ فرانس کے خفیہ ادارے ایک عرصے سے امریکی خفیہ ایجنسیوں کے ساتھ مل کر سرگرم عمل ہیں۔ ڈوئچے ویلے کے ایک تجزیے کے مطابق ایسے میں یہ پتہ نہیں چل پا رہا ہے کہ دوست کون ہے اور دشمن کون؟ تجزیے کے مطابق شاید حقیقت ان دونوں کے درمیان کہیں ہے۔