’جاسوسی عشروں سے جاری‘، جرمن مؤرخ فوشے پوتھ
29 جولائی 2013ڈوئچے ویلے: فوشے پوتھ صاحب، آپ ایک تاریخ دان کے طور پر یہ کہہ رہے ہیں کہ نگرانی اور جاسوسی کا سلسلہ وفاقی جمہوریہ جرمنی کے قیام کے وقت سے چلا آ رہا ہے۔ کیا ایڈورڈ سنوڈن کے انکشافات آپ کے لیے سرے سے حیران کن تھے؟
فوشے پوتھ: نہیں، بالکل نہیں۔ مَیں تو اس پر ہونے والے ابتدائی رد عمل، خاص طور پر سیاسی شعبے کے رد عمل پر حیران ہوا ہوں۔ گویا یہ کوئی پہلی دفعہ اور انتہائی ہولناک بات ہو گئی ہو حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ مَیں اپنی ذاتی تحقیقات کی بناء پر جانتا ہوں کہ وفاقی جمہوریہ جرمنی کی تاریخ میں ایسا پہلے بھی بے شمار مرتبہ ہو چکا ہے۔
ڈوئچے ویلے: تو پھر آپ وفاقی حکومت کے محتاط طرزِ عمل کی کیا وضاحت کریں گے؟
فوشے پوتھ: ظاہر ہے، اس طرح کے اسکینڈل ہمیشہ ہی تکلیف دہ ہوتے ہیں کیونکہ ان کے نتیجے میں وہ چیزیں منظر عام پر آ جاتی ہیں، جو اب تک درپردہ چل رہی ہوتی ہیں۔ (سیاستدان) ان چلتے ہوئے قصوں کو چھیڑنا نہیں چاہتے اور اسی لیے اُنہیں کم اہم بنا کر پیش کرتے ہیں۔ لیکن یہ یڑے پیمانے پر جاسوسی اور نگرانی کا ایک سنگین معاملہ ہے، اس میں یہ ممکن نہیں ہے اور پھر معاملہ ایک ایسے ملک کا ہے، جس کے ساتھ ہم دراصل دوستی کے بندھن میں بندھے ہیں۔
ڈوئچے ویلے: آپ کہتے ہیں کہ یہ جاسوسی کئی عشروں سے اور 1949ء میں وفاقی جمہوریہ جرمنی کے قیام کے وقت سے چلی آ رہی ہے۔ اُس زمانے میں قابض اتحادی طاقتوں بالخصوص امریکا کو کون کون سے حقوق حاصل تھے؟
فوشے پوتھ: ہمارے لیے یہ بات واضح ہونی چاہیے کہ تب یہ فاتح طاقتیں اس ملک پر قبضہ کرنے کے لیے آئی تھیں۔ وہ اس امر کو یقینی بنانا چاہتی تھیں کہ جرمن سرزمین سے پھر کبھی کوئی ایسا خطرہ جنم نہ لے، جیسا کہ نازی آمریت کے دور میں دیکھنے میں آیا تھا۔ تاہم نیشنل سوشلسٹ جرمنی کے ساتھ تنازعے کے فوراً بعد سابق سوویت یونین کے ساتھ تنازعہ چل پڑا اور سرد جنگ شروع ہو گئی۔ تب امریکا کو دہری حکمتِ عملی اختیار کرنا پڑی، جس کا مقصد ایک طرف سوویت یونین اور دوسری طرف جرمنی کا راستہ روکنا تھا۔ اور اس پالیسی کا ایک اہم ذریعہ جاسوسی یا نگرانی تھا۔
ڈوئچے ویلے: لیکن 1955ء میں نافذ العمل ہونے والے معاہدہء جرمنی میں تو تمام داخلی اور خارجہ معاملات میں جرمنی کی حاکمیتِ اعلیٰ کی مکمل بحالی کا ذکر کیا گیا تھا تو امریکیوں کی نگرانی کی حکمتِ عملی کے حوالے سے اس معاہدے کی اہمیت کیا تھی؟
فوشے پوتھ: یہ ساری اصطلاحات سننے میں بڑی خوش کُن لگتی ہیں اور خاص طور پر عوام کو مطمئن کرنے کے لیے ہوتی ہیں۔ اُس زمانے میں دوسری عالمی جنگ کے دَس سال بعد جرمنوں کے ہاں پھر سے مکمل حاکمیت اعلٰی کا حامل ملک بننے کی خواہش تو موجود تھی لیکن درحقیقت اُنہیں یہ تشخص حاصل نہیں تھا۔ 1955ء کے معاہدہء جرمنی ہی میں کئی خفیہ اضافی شقیں اور سمجھوتے بھی شامل تھے، جن کے ذریعے اتحادی مغربی طاقتوں کو آئندہ بھی اُن کے اُن بہت سے اہم حقوق کی ضمانت دی گئی تھی، جو اُنہیں قبضے کے دور میں حاصل تھے۔ اُنہی میں ٹیلیفون اور ڈاک کی نگرانی بھی شامل تھی۔ اِن خفیہ سمجھوتوں کی پاسداری کرنا آج تک ہر جرمن حکومت کے فرائض میں شامل چلا آ رہا ہے۔
ڈوئچے ویلے:تو گویا یہ خفیہ اضافی سمجھوتے جرمنی کے دوبارہ اتحاد کے بعد بھی ختم نہیں ہوئے حالانکہ تب تو جرمن سرزمین پر قبضے کا دور حتمی طور پر ختم ہو گیا تھا؟
فوشے پوتھ: اس لیے کہ یہ سمجھوتے خفیہ تھے۔ بڑی طاقتیں ایسے ہی کیا کرتی ہیں۔ جرمنی یورپ میں امریکیوں کا سب سے بڑا مرکز تھا اور یہاں اُنہیں فراخدلی کے ساتھ مختلف حقوق دیے گئے تھے۔ اُنہوں نے یہاں ایک چھوٹا سا امریکا بنا لیا تھا، جس میں وہ کسی جرمن حکومت کو بھی مداخلت کی اجازت نہیں دیتے تھے۔ وہ اپنی اس آزادی سے دستبردار نہیں ہونا چاہتے تھے۔ پھر اُس زمانے کے چانسلر ہیلمٹ کوہل کے لیے زیادہ اہم یہ تھا کہ جلدی سے دونوں جرمن ریاستوں کا دوبارہ اتحاد ہو جائے۔ اُنہوں نے سوچا ہو گا کہ یہ ذرا طویل اور پیچیدہ معاملات ہیں، ان پر پھر بات کر لیں گے۔ اور اس کے باوجود کہا ہر جگہ یہی جاتا رہا کہ ہم ایک مکمل حاکمیت اعلیٰ رکھنے والا ملک ہیں۔
ڈوئچے ویلے:یہ تو اب بھی ایسے ہی ہے۔ جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے زور دے کر کہا ہے کہ جرمنی کوئی ایسا ملک نہیں ہے، جہاں عوام کی نگرانی کی جاتی ہو۔ آپ الٹا یہ کہہ رہے ہیں کہ جرمنی وہ ملک ہے، جہاں یورپ بھر میں سب سے زیادہ نگرانی کی جاتی ہے ...
فوشے پوتھ: پہلی غلطی تو اُس دور کے چانسلر کونراڈ آڈیناؤر سے ہی ہو گئی تھی، جنہوں نے اتحادیوں کے خصوصی حقوق پر اپنی رضامندی ظاہر کر دی تھی حالانکہ یہ اُس آئین کی صریحاً خلاف ورزی تھی، جو ڈاک اور ٹیلیفون کے محفوظ ہونے کی ضمانت دیتا ہے۔
ڈوئچے ویلے: تو اب آپ کے خیال میں کیا کیا جانا چاہیے؟
فوشے پوتھ: دو امکانات ہیں: ایک یہ کہ ہم کچھ بھی نہ کریں۔ ایسے میں سب کچھ ویسے ہی ہوتا رہے گا، جیسا کہ اب تک ہوتا چلا آ رہا ہے۔ ایک وقت آئے گا کہ رائے عامہ کی دلچسپی بھی کم ہو جائے گی۔ زیادہ سے زیادہ ایک کمیٹی بنے گی، جو اپنی رپورٹ پیش کر دے گی اور معاملہ ختم ہو جائے گا۔ دوسرا زیادہ بہتر امکان یہ ہے کہ رائے عامہ کا دباؤ اتنا بڑھ جائے کہ سیاستدان کوئی عملی قدم اٹھانے پر مجبور ہو جائیں۔ پھر تمام طرح کے خفیہ سمجھوتے ایک بار پھر جانچ پڑتال کے مرحلے سے گزریں گے اور پتہ چلے گا کہ اتحادیوں کا دباؤ کس قدر تھا؟ جرمنی کے اندر پیش آنے والے حالات پر امریکا کس حد تک اثر انداز ہوا؟ جرمنی کی حاکمیت اعلیٰ کے لیے اس کا مطلب کیا ہے؟ اس پر عوامی بحث مباحثہ ہونا چاہیے۔ ہمارے آئین کی اعلیٰ ترین قدر ہمارے بنیادی حقوق ہیں، نہ کہ وہ کچھ، جسے ہمارے خفیہ ادارے ہمیشہ ’سکیورٹی‘ قرار دے دیتے ہیں۔
پروفیسر ڈاکٹر یوزف فوشے پوتھ جرمن شہر فرائی برگ کی یونیورسٹی سے وابستہ ہیں اور ’نگرانی کی زَد میں آیا ہوا جرمنی‘ نامی کتاب کے مصنف ہیں۔