جاپان مہاجرين کو سياسی پناہ کيوں نہيں ديتا؟
28 دسمبر 2015ايک وقت تھا کہ جب محمد اپنے بچپن کے دوست جمال کے ہمراہ شامی دارالحکومت دمشق ميں اپنے مکان کی چھت پر لگے ايک ٹینٹ ميں ويڈيو گيمز کھيلا کرتا تھا۔ پھر ايک روز وہ اسی چھت پر سے سرکاری دستوں کو باغيوں کو نشانہ بناتے ديکھ رہا تھا کہ اس کے سر کے انتہائی قريب سے ايک گولی گزری۔ اس دن اس کی سمجھ ميں آيا کہ زندگی اور موت ميں کتنا کم فاصلہ ہے۔
کسی دور ميں وکالت کا طالب علم محمد آج جاپانی دارالحکومت ٹوکيو ميں فٹنس انسٹرکٹر کی ملازمت کر رہا ہے۔ ساتھ ہی وہ وقت نکال کر زبان بھی سيکھ رہا ہے تاکہ کسی نہ کسی طرح اسے بھی اپنے ساتھی جمال کی طرح وہاں سياسی پناہ مل جائے۔ ليکن اس کے امکانات ذرا کم ہی ہيں۔
سن 2014 ميں مجموعی طور پر 7,533 تارکين وطن نے جاپان ميں سياسی پناہ کے ليے درخواستيں جمع کرائيں، جن ميں سے اب تک صرف گيارہ کو منظوری مل ہو سکی ہے۔ ابتدائی دستاويزی کارروائی کے تقريباً ڈيڑھ سال بعد منظور ہونے والی درخواستوں ميں محمد کے دوست جمال، اس کی ماں اور بہن کی بھی درخواستيں شامل تھيں۔
جاپان ميں زيادہ تر لوگوں کے ليے سياسی پناہ کی درخواست کا فيصلہ مثبت نہيں ہوتا۔ گزشتہ پانچ برسوں کے دوران جاپان ميں پناہ کے متلاشی افراد کی درخواستوں کی منظوری کا تناسب ايک فيصد سے بھی کم تھا، جو پچھلے سال يعنی سن 2014 ميں تو صرف 0.2 فيصد رہا۔ اگر اس کا موازنہ جرمنی سے کيا جائے، تو پتہ لگتا ہے کہ یہاں 2013ء سے اب تک سياسی پناہ کی چاليس ہزار سے زائد درخواستيں منظور کی جا چکی ہيں۔
يہ امر اہم ہے کہ پناہ گزينوں کے موجودہ بحران کے حل کے ليے جاپان کی جانب سے دی جانے والی مالی امداد کم نہيں ليکن جب بات مہاجرين کو اپنے ہاں پناہ دينے کی ہو، تو جاپان کا کردار نہ ہونے کے برابر ہے۔ دراصل يہ صورتحال جاپان ميں غير ملکيوں سے الجھن کے سبب پیدا ہوئی ہے۔ وہاں لوگوں کے رہن سہن کا ايک روايتی طريقہ کار ہے، جس کے سبب غير ملکيوں کے حوالے سے ذرا ہچکچاہٹ پائی جاتی ہے۔ ملک ميں افرادی قوت ميں مسلسل کمی پريشانی کا سبب بنتی جا رہی ہے ليکن اس کے باوجود حکام نے بارہا مطالبات کے باوجود غير ملکيوں کے ليے اپنے دروازے بند ہی رکھے ہوئے ہيں۔ جاپانی اميگريشن حکام کا کہنا ہے کہ ان کے خيال ميں اکثريتی مہاجرين جنگ و جدل سے پناہ حاصل کرنے نہيں بلکہ ملازمت کے ليے جاپان کا رخ کر رہے ہيں۔
البتہ دمشق سے تعلق رکھنے والے محمد کا کہنا ہے کہ وہ تو صرف اپنی جان بچانے کے ليے ہی وہاں گيا تھا۔ اس نے بتايا، ’’ميں اپنی چھت پر تھا کہ ايک گولی سے ميں بال بال بچا۔ پھر ہم سب، ميں، ميرا بھائی اور دو پڑوسی، خود کو محفوظ رکھنے کے ليے زمين پر ليٹ گئے۔‘‘ محمد کا شمار ان تقريباً پچاس شامی تارکين وطن ميں ہوتا ہے، جنہوں نے جاپان ميں سياسی پناہ کے ليے درخواست دے رکھی ہے۔ دس شامی شہری رضاکارانہ طور پر جاپان سے رخصتی اختيار کر چکے ہيں۔
اگر سن 1982 سے اب تک کے اعدادوشمار کا جائزہ ليا جائے، تو اس عرصے کے دوران جاپان ميں سياسی پناہ کی مجموعی طور پر 22,559 درخواستيں جمع کرائی گئيں، جن ميں سے صرف 633 پرمثبت فیصلہ ہوا۔ اميگريشن حکام درخواستيں مسترد کرنے کی وجہ تک بيان نہيں کرتے۔
اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرين آنتونيو گوترس نے اپنے ايک حاليہ دورہ جاپان ميں حکومت پر زور ديا تھا کہ موجودہ صورتحال ميں جاپان ميں پناہ گزينوں کی تعداد بڑھائی جائے۔ اقوام متحدہ کے اس اہلکار نے ٹوکيو حکومت سے يہ بھی کہا تھا کہ پناہ سے متلق قوانين اور طريقہ کار کی نظر ثانی کی جائے۔