جاپان کا جوہری پاور پلانٹ اب آگ کی زد میں
16 مارچ 2011جاپان کی اٹامک سیفٹی ایجنسی ’نیوکلیئر اینڈ انڈسٹریل سیفٹی ایجنسی‘ کے ترجمان منورو اوگودا نے خبررساں ادارے اے ایف پی کو بتایا، ’ہمیں پلانٹ کے منتظمین سے معلومات موصول ہوئی ہیں کہ وہاں آگ یا دھواں اب دکھائی نہیں دے رہا۔ ایسا لگتا ہے کہ آگ خود ہی بجھ گئی ہے۔‘
بدھ کو لگنے والی آگ کے نتیجے میں کم تر سطح کی ریڈی ایشن دارالحکومت ٹوکیو کی جانب بڑھی۔ اس کے نتیجے میں کچھ لوگوں نے شہر چھوڑنا شروع کر دیا جبکہ بین الاقوامی سطح پر بھی تشویش پیدا ہو گئی ہے۔ تاہم حکام کا کہنا ہے کہ ٹوکیو میں ریڈی ایشن کی سطح مہلک نہیں ہے۔
جوہری توانائی کے بین الاقوامی ادارے آئی اے ای اے کے ڈائریکٹر جنرل یوکیا امانو نے اس حوالے سے بروقت اور تفصیلی معلومات دیے جانے کا مطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے ویانا میں ایک نیوز کانفرنس سے خطاب میں کہا، ’ہمیں تفصیلی معلومات حاصل نہیں، جس کی وجہ سے ہماری کوششیں محدود ہیں۔‘
توانائی کے امریکی محکمے کا کہنا ہے کہ جوہری بحران کے تناظر میں جاپان کی مدد کے لیے 34 رکنی ایک ٹیم جاپان روانہ کر دی گئی ہے۔
جاپانی وزیر اعظم ناؤتو کان نے منگل کو فوکوشیما ڈائچی پلانٹ سے30 کلومیٹر کے علاقے میں آباد شہریوں پر زور دیا تھا کہ گھروں کے اندر ہی رہیں۔ اس علاقے میں ایک لاکھ 40 ہزار افراد آباد ہیں۔
وزیر اعظم ناؤتو کان ان حالات کو دوسری عالمی جنگ کے بعد ملک کے لیے بدترین قرار دے چکے ہیں۔ اس کے نتیجے میں اٹھنے والے اخراجات کا تخمینہ 180 ارب ڈالر لگایا گیا ہے۔
جاپان کو جوہری بحران کے علاوہ زلزلے اور سونامی کے نتیجے ہونے والی تباہی کا بھی سامنا ہے، جس کے نتیجے میں دس ہزار سے زائد افراد کی ہلاکت کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ جاپان کے سرکاری ٹیلی وژن این ایچ کے کے مطابق ساڑھے تین ہزار سے زائد اموات کی تصدیق ہو چکی ہے جبکہ ساڑھے سات ہزار سے زائد افراد تاحال لاپتہ ہیں۔
اس ٹیلی وژن کا کہنا ہے کہ زلزلے اور سونامی سے متاثرہ علاقوں سے چار لاکھ 40 ہزار افراد کو نکال کر محفوظ مقامات پر منتقل کیا جا چکا ہے۔
بتایا جاتا ہے کہ متاثرہ علاقوں میں 76 ہزار مکان متاثرہ ہوئے ہیں، جن میں سے چھ ہزار سے زائد مکمل طور پر تباہ ہوئے۔
رپورٹ: ندیم گِل/خبررساں ادارے
ادارت: افسر اعوان