جاپانی جوہری بحران، تابکاری میں مزید اضافہ
30 مارچ 2011ٹوکیو پاور الیکٹرک کمپنی ٹیپکو کے ایک ترجمان نے بتایا ہے کہ فوکوشیما ڈائچی جوہری پاور پلانٹ کے ری ایکٹر نمبر ایک کے قریب سمندر کے پانی میں قانونی حَد سے تین ہزار تین سو پچپن گنا زیادہ ریڈیوایکٹیوآئیوڈین پائی گئی ہے۔ قبل ازیں حاصل کیے گئے نمونوں کے مطابق یہ سطح قانونی حد سے ایک ہزار آٹھ سو پچاس گنا زیادہ تھی۔
تاہم یہ بھی کہا گیا ہے کہ انسانی صحت پر اثر انداز ہونے سے قبل اس تابکاری مواد کا اثر زائل ہو جائے گا۔ یاد رہے کہ یہ تابکاری شعاعیں جسمانی خلیات میں جذب ہو کر موت اور کینسر کا بھی سبب بن سکتی ہیں۔
حکام کے مطابق وہ ابھی تک تابکاری میں اضافے کی وجہ معلوم کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ جاپانی جوہری حفاظت کے ادارے کے ایک ترجمان کا کہنا ہے، ’’ تابکاری میں مزید اضافہ ہو رہا ہے، ہمیں جلد سے جلد وجوہات کو تلاش کرنے کی ضرورت ہے تاکہ بڑھتی ہوئی تابکاری کو روکا جا سکے۔‘‘
تابکاری شعاعیں فوکو شیما کے ایٹمی بجلی گھر سے خارج ہونے کے بعد وہاں کی فضا، قریبی سمندر کے پانی اور زرعی اجناس میں بھی شامل ہو چکی ہیں۔ جاپانی حکومت کی طرف سے اس متاثرہ پلانٹ کے اردگرد ابتداء میں 20 کلومیٹر کے علاقے کو خالی کرا یا گیا تھا تاہم بعد میں اس حفاظتی دائرے کو دس کلومیٹر تک مزید بڑھا دیا گیا ہے۔
اُدھر امریکی صدر باراک اوباما نے جاپان کے وزیر اعظم ناؤتو کان سے ٹیلی فون پر بات کی ہے۔ وائٹ ہاؤس کے اعلامیے کے مطابق دونوں رہنماؤں نے جاپان کے جوہری بحران پر قریبی تعاون کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ امریکہ نے یہ اعلان بھی کیا ہے کہ جاپان میں زلزلے سے متاثرہ جوہری توانائی پلانٹ کی بحالی کے لیے روبوٹس فراہم کیے جائیں گے۔ امریکی انرجی ڈیپارٹمنٹ کے مطابق یہ روبوٹس تابکاری کو سہنے کی صلاحیت رکھنے والے مواد سے بنائے گئے ہیں۔ جاپان کو ان روبوٹس کی فراہمی کی تفصیلات امریکہ کے قائم مقام وزیر توانائی پیٹر لیونز نے سینیٹ کو دی ہیں۔ یہ روبوٹ فوکوشیما جوہری مرکز کے اس احاطے میں بحالی کے عمل میں شریک ہوں گے، جہاں تابکاری شعاعوں کی سطح انتہائی بلند ہے۔
فرانسیسی صدر نکولا سارکوزی جمعرات 31 مارچ کو جاپان پہنچ رہے ہیں۔ وہ گیارہ مارچ کے زلزلے کے بعد جاپان کا دورہ کرنے والے پہلے غیرملکی رہنما ہوں گے۔ سارکوزی جمعرات کو جاپانی وزیر اعظم ناؤتو کان سے ملاقات کریں گے۔ فرانس نے جوہری بحران میں جاپان کی مدد کے لیے اپنے دو ماہر بھی وہاں بھیجے ہیں۔
رپورٹ: امتیاز احمد
ادارت: افسر اعوان