جاپانی معیشت کے قومی سیاست پر اثرات
10 جولائی 2009تارو آسو کی مخالف، ڈیموکریٹک پارٹی اگر اتوار کے روز ٹوکیو کے بلدیاتی انتخابات میں بازی لی گئی، تو وزیر اعظم کو اس کے سیاسی اثرات کا سامنا قومی سطح پر کرنا پڑ سکتا ہے۔
جاپان میں قومی انتخابات اس سال اکتوبر میں ہوں گے، مگر اس الیکشن سے تین ماہ قبل ہی وہاں سیاست میں ایک ہنگامی تبدیلی متوقع ہے۔ اس تبدیلی کا پیش خیمہ ملکی دارالحکومت اور سب سے زیادہ آبادی والے شہر ٹوکیو میں ہونے والے وہ بلدیاتی الکیشن ہو سکتے ہیں جن کے نتائج مستقبل کی قومی سیاست کے لئے انتہائی اہم ہوں گے۔
ٹوکیو کے مقامی انتخابات میں تارو آسو کی طویل عرصے سے بر سر اقتدار لبرل ڈیموکریٹک پارٹی LDP کا مقابلہ ان کی سب سے بڑی حریف ڈیموکریٹک پارٹی سے ہو رہا ہے جو ملکی دارالحکومت میں اپنا سکہ جمانے کی خواہش مند ہے۔
تجزیہ نگاروں کے مطابق ٹوکیو کے میٹروپولیٹن انتخابات میں تارو آسو کی LDP زیادہ کامیاب ہوتی دکھائی نہیں دیتی کیونکہ جاپانی عوام کی اکثریت موجودہ حکومت کی اقتصادی پالیسیوں پر شدید ردعمل ظاہر کررہی ہے۔ ابھی حال ہی میں مختلف ملکی اخبارات میں چھپنے والے عوامی جائزوں میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ ٹوکیو کے 50 فیصد شہری ممکنہ طور پر اپوزیشن کی ڈیموکریٹ پارٹی کو ووٹ دیں گے۔
مگر ان حالات میں وزیر اعظم کی لبرل ڈیموکریٹک پارٹی رائے عامہ کو اپنے حق میں کرنے کے لئے اپوزیشن جماعت کے سربراہ ہوتایاما کی ذات کے حوالےسے مالی سکینڈل کو بھی استعمال کرسکتی ہے۔
اسی دوران وزیراعظم آسو کی پارٹی میں ان کے حریف سیاستدان ہیروشیگے سیکو کہتے ہیں کہ ٹوکیو کے بلدیاتی انتخابات کے نتائج ملکی سیاست میں افراتفری پیدا کردیں گے۔ ان نتائج کا مقابلہ کرسکنے کے لئے وہ ذاتی طور پر LDP میں قبل از وقت پارٹی انتخابات کا مطالبہ کرتے ہوئے پارٹی سربراہ کے طور پر تارو آسو کی برطرفی کی درخواست دینا چاہتے ہیں۔ اگر موجودہ وزیر اعظم پر ان کی اپنی جماعت نے عدم اعتماد کا اظہار نہ کیا تو بھی ستمبر میں ان کے پارٹی عہدے کی مدت یوں بھی پوری ہوجائے گی۔
جاپانی وزیر اعظم کے خلاف عوامی غصے کی بنیادی وجہ موجودہ مالیاتی بحران ہے، جسے اقتصادی ماہرین جاپان میں گذشتہ چھ عشروں میں پیدا ہونے والے شدید ترین بحران کا نام دیتے ہیں۔
رپورٹ : انعام حسن
ادارت : مقبول ملک