کسی نہ کسی مجبوری کی وجہ سے تارک وطن ہو کر، جس میں اپنی جان بچانے کے لیے وطن چھوڑنا بھی شامل پے، انسان جس کسی نئی جگہ، معاشرے یا ملک کا رخ کرتا ہے، تو وہاں خود کو ایک ننھے سے پودے کی طرح مٹی میں لگا کر خود ہی اس کی آبیاری بھی کرتا ہے۔ یوں شاید اس کا میزبان ملک اور معاشرہ ہی اس کا وطن بن جائے۔ اس طویل عمل کا سب سے تکلیف دہ پہلو یہ ہوتا ہے کہ کسی تارک وطن کو اپنے ''نئے‘‘ وطن کو بھی خیرباد کہنا پڑے، اسے وہاں سے بھی رخصتی پر مجبور کر دیا جائے، یا جبراً ملک بدر کر دیا جائے، اور آخر میں آنکھوں میں آنسوؤں کے ساتھ ساتھ چہرے پر دکھ اور بےبسی کے علاوہ یہ محسوسات بھی پڑھے جا سکیں: ''میرے وطن کا احساس مبہم اور وطن کی پہچان بہت مشکل ہو چکی۔ میرا وطن کہاں ہے؟‘‘
اسی سوال کا سامنا آج کل ان لاکھوں افغان باشندوں کو بھی ہے، جو سالہا سال سے پاکستان میں مقیم ہیں۔ مہاجر تھے، تارکین وطن یا صرف پناہ کے لیے ہی پاکستان آئے تھے مگر جن کی آج تک پاکستان میں قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کے طور پر رجسٹریشن نہیں ہوئی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں ایسے افغان باشندوں کی تعداد ایک ملین سے کہیں زیادہ ہے۔
ان کو پاکستان سے رضاکارانہ طور پر خود ہی چلے جانے کے لیے پاکستانی حکومت نے جو مہلت دی تھی، وہ اکتیس اکتوبر کو پوری ہو گئی تھی۔ اس کے بعد سے پاکستان سے ایسے غیر رجسٹرڈ افغان باشندوں کی جبری واپسی کا عمل یکم نومبر سے جاری ہے۔ اس دوران اب تک ایسے قریب ڈھائی لاکھ افغان شہری واپس افغانستان جا چکے یا بھیجے جا چکے ہیں اور لاکھوں دیگر اپنی ملک بدری سے بچنے کے لیے چھپتے پھرتے ہیں۔ جو اب تک واپس افغانستان جا بھی چکے، وہ بھی زیادہ تر پاکستان کے ساتھ سرحدی علاقوں میں بے یار و مددگار عارضی خیموں میں مقیم ہیں اور ان میں سے تقریباً ہر کسی کے چہرے پر یہی لکھا ہے: میرا وطن کہاں ہے؟
میرے ذہن میں انسانوں اور ان کے وطن کا احساس مبہم ہو جانے سے متعلق بہت سے سوالوں کے پیدا ہونے کی وجہ میری ایک دوست ملکہ زاہدی (نام دانستہ بدل دیا گیا) بنی۔ ملکہ کے والدین انیس سو نوے کی دہائی میں تب افغانستان میں جاری جنگ میں اپنی جان بچاتے ہوئے اپنی چار بیٹیوں اور ایک بیٹے کے ساتھ چترال کے راستے پناہ کے لیے پاکستان آئے تھے۔ شروع میں ملکہ کے والد نے اپنے خاندان کے ساتھ لاہور میں رہائش اختیار کی۔ اپنا کاروبار شروع کرنے کی کوشش کی، کامیابی نہ ملی تو گوجرانوالہ میں مشینری کی درآمد کا کام شروع کیا، وہاں بھی خسارہ ہوا تو پشاور جا کر اپنے خاندان کے ساتھ ناصر باغ کے دو افغان مہاجر کیمپوں میں سے ایک میں مقیم ہو گئے۔ طویل المدتی بنیادوں پر حالات وہاں بھی بہتر نہ ہوئے تو ملکہ کے خاندان نے اپنے سربراہ کے فیصلے کے مطابق کوئٹہ منتقل ہونے کا پروگرام بنایا۔ اس دوران ملکہ کے تین بہن بھائی پاکستان ہی میں پیدا ہوئے۔
ملکہ کے والد کے پاس شروع میں اتنے وسائل نہیں تھے کہ اپنے بچوں کو نجی سکولوں میں تعلیم دلوا سکتے۔ کسی حد تک یہ اخراجات ادا کرنے کے قابل ہوئے تو سرکاری دستاویزات اور جسٹریشن سرٹیفیکیٹس کی عدم موجودگی بچوں کی تعلیم کی راہ میں رکاوٹ بن گئی۔ یوں ملکہ کا خاندان پاکستان میں سارا وقت اپنے آنے والے کل کو بہتر بنانے کے لیے ایسی جدوجہد میں مصروف رہا، جس میں ان کا آج ہمیشہ نظر انداز ہوتا رہا۔
ملکہ کی اپنی زندگی کے یہ حقائق بہت تلخ اور ناقابل یقین ہیں کہ وہ کم عمری میں کسی سکول نہ جا سکی۔ گھر کے ساتھ ایک سکول میں جب بچے بچیاں پڑھتے تھے تو وہ ان کو دیا جانے والا سبق سن کر اسے دہراتی تھی اور ساتھ ہی دیوار کے پار سے آنے والی آوازیں سن کر انہی لفظوں کو اپنے گھر کی دیواروں یا زمین پر لکھ کر ان لفظوں کو لکھنے اور بولنے کی مشق کیا کرتی تھی۔
اسی دوران ملکہ زاہدی کے والد پانچ سال تک خون کے سرطان کے مرض میں مبتلا رہنے کے بعد دو ہزار سات میں انتقال کر گئے تو اس خاندان کو اپنی بقا کی جنگ پھر سے شروع کرنا پڑی۔ ملکہ ایک چھوٹے سے پرائمری سکول میں پہلی جماعت کے بچوں کی ٹیچر کے طور پر عارضی نوکری کرنے لگی۔ بعد کے برسوں میں اس نے میٹرک، پھر ایف اے اور اس کے بعد بی اے کے امتحانات پرائیویٹ سٹوڈنٹ کے طور پر پاس کیے، لیکن باقاعدہ تعلیم حاصل نہ کرنے کی وجہ سے ملکہ کو یہ تینوں امتحانات دو دو مرتبہ دینا پڑے۔ اس کے بعد حالات کے سامنے کبھی ہار نہ ماننے والی ملکہ نے بلوچستان یونیورسٹی سے باقاعدہ ماسٹرز کی تعلیم بھی حاصل کی۔ یہ اس کے تعلیمی کیریئر کا وہ واحد حصہ تھا جس میں وہ ایک باقاعدہ طالبہ کے طور پر حصول تعلیم میں کامیاب ہوئی۔
آج ملکہ ایک پیشہ ور صحافی ہے اور ملکی اور غیر ملکی میڈیا اداروں کے لیے بہت سی کامیاب اور انعام یافتہ دستاویزی فلمیں بھی بنا چکی ہے۔ لیکن ساتھ ہی وہ اب چھپتی پھرتی ہے کہ اس کا تعلق افغانستان سے ہے، اپنی عمر کے وہ تقریباً تین عشرے پاکستان میں گزار چکی، یہیں وہ پلی بڑھی، یہی پاکستان اس کا وطن ہے۔ وہ افغانستان جہاں سے اس کے والدین عشروں پہلے چترال کے راستے پاکستان آئے تھے، اس افغانستان کو ملکہ جانتی بھی نہیں۔ لیکن وہ چھپتی پھرتی ہے کہ اسے بھی لاتعداد دیگر افغان شہریوں کی طرح پکڑ کر جبراً ملک بدر کر کے پاکستان سے واپس افغانستان بھجوا دیا جائے گا۔
اس بارے میں ملکہ نے میرے ساتھ گفتگو میں جو آخری سوال کیا، وہ بہت تکلیف دہ تھا۔''اگر میری جگہ آپ ہوتیں اور اگر صرف اسی ایک ملک سے جسے آپ جانتی ہیں، اگر آپ کو یہاں سے افغانستان بھیج دیا جائے، اور وہاں آپ کو کام کرنے کی اجازت بھی نہ ہو، تو آپ کیا کہیں گی کہ آپ کا وطن کون سا ہے؟ وہ جہاں آپ کو بھیج دیا جائے اور جسے آپ جانتی تک نہیں؟ یا پھر وہ جہاں آپ نے اپنی تقریباً ساری عمر گزار دی، جسے آپ نے سمجھا تھا کہ وہی آپ کا وطن اور پہچان ہے، اور جہاں سے آپ کو ملک بدر کر دیا گیا ہو؟”
میرے پاس ملکہ کے اس سوال کا کوئی جواب نہیں تھا۔ میں شرمندہ تھی۔ اپنی بےبسی پر اور کچھ نہ کر سکنے پر شرمندہ۔ میں نے آگے بڑھ کر ملکہ کو گلے لگا لیا۔ کچھ بھی کہے بغیر۔ وطن کی ضرورت ہر کسی کو ہوتی ہے۔ لیکن اس کی شناخت کا مبہم ہو جانا تب تک آنسوؤں میں ڈھل چکا تھا!
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔