1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جبری فوجی سروس سے فرار، ہزاروں روسی جرمنی میں

1 جنوری 2023

روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے رواں برس ستمبر میں لازمی فوجی سروس کے جزوی اطلاق کا اعلان کیا، تو لاکھوں روسی ملک سے فرار ہو کر دیگر ممالک کو ہجرت کر گئے، جن میں سے کئی جرمنی میں ہیں۔

https://p.dw.com/p/4Lazd
Russen fliehen vor Teilmobilmachung
تصویر: Valery Sharifulin/ITAR-TASS/imago images

اکیس ستمبر کو صدر ولادیمیر پوٹن نے اپنی تقریر کے بعد ملک بھر میں لازمی فوجی خدمات کے قانون کے جزوی اطلاق کی ہدایات جاری کیں، تو روس کی سرحدوں پر ملک سے فرار ہونے والوں کی قطاریں لگ گئیں۔ یہ تو واضح نہیں کہ ایسے روسی شہریوں کی اصل تعداد کیا تھی، تاہم بعض رپورٹوں کے مطابق لاکھوں افراد نے یوکرین میں جنگ پر جانے سے انکار کرتے ہوئے روس چھوڑ دیا۔

یوکرینی جنگ میں شدت لانا پوٹن کی بقا کا مسئلہ

شام میں روسی فوجی اڈے مستقل بنیادوں پر ہیں، پوٹن

روس سے فرار ہونے والوں میں سے بعض نے جرمنی میں پناہ لی۔ ڈی ڈبلیو نے ایسے کچھ روسی شہریوں اور جرمنی میں ان کی مدد کرنے والے رضاکاروں سے گفتگو کی۔

میں اپنی تقدیر سے نہیں کھیلنا چایتا تھا، آیا

آیا کاروں کے کاروبار سے وابستہ تھے اور روسی شہر یکاترنبرگ کے رہائشی تھے۔ اکیس ستمبر کو کام پر ہی انہوں نے پوٹں کی تقریر سنی۔ ''اس کے بعد میں نے فوراﹰ اپنی چیزیں پیک کیں اور استعفیٰٗ دیا کیوں کہ میں ان میں شامل تھا، جنہیں سب سے پہلے بلایا جا سکتا تھا۔ میں ایک سنائپر ہوں، عسکری گاڑی کا کمانڈر اور دستی بموں کو چلانے والا۔ مجھے اڑتیس گنٹھوں کے اندر رپورٹ کرنا تھا۔ میرے لیے روس میں رہنے کا مطلب واضح تھا۔ میں اپنی تقدیر سے ن ہیں کھیلنا چاہتا تھا۔

تربیت کے اعتبار سے نیوکلیئر طبیعات دان آیا اپنی گریجویشن کے بعد روسی فوج میں شامل ہو کر خدمات انجام دے چکے ہیں۔ ''مجھے لگا تھا کہ روسی فوج طاقت ور، مضبوط اور عظیمہے، لیکن وہاں مجھے مکمل انارکی نظر آئی۔ فوج میں شامل ہو کر مجھے بہت سی باتیں سمجھ آئیں بہ شمول روسی سیاست کے۔‘‘

انہوں نے بتایا کہ ان کی تمام تر ذمہ داریاں فقفط کاغذ پر تھیں اور انہیں فوج میں کچھ بھی سیکھنے کو نہیں ملا۔ اس لیے اب وہ بہ طور فوجی ذرا بھی کارآمد نہ ہوتا۔

میرا ریاستی سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں، اولگا

اولگا چھبیس ستمبر کو روس سے جرمنی پہنچی تھیں۔ وہ ماسکو میں متعدی بیماریوں کے شعبے سے وابستہ تھیں اور انہیں بتایا گیا تھا کہ کچھ خاص شعبوں سے جڑے ڈاکٹرز کو فوجی میں لازمی خدمات انجام دینا ہیں۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے طے کیا کہ چوں کہ جنگ ممکن ہے اس لیے وہ اس کا حصہ نہیں بنیں گی۔

''کووڈ کے دنوں میں میں دیکھ چکی تھی کہ ہماری ریاست نے شہریوں سے کیا برتاؤ کیا، خصوصاﹰ ڈاکٹروں کے ساتھ۔ میں اس وقت حاملہ تھی۔ ہمیں گریجویشن مکمل ہونے سے بھی پہلے کہا گیا کہ ہم بغیر معاوضہ لیے کووڈ کلینکس میں کام کریں کیوں کہ دوسری صورت میں ہمیں اسناد جاری نہیں کی جائیں گی۔‘‘

اولگا روسی شہر روستوو آن دون میں پیدا ہوئیں۔ ان کی والدہ کا تعلق یوکرینی شہر ماریوپول سے ہے۔ یہ شہر اب روسی قبضے میں ہے۔ امن کے والد روسی ہیں اور تیس برسروسی فوج میں کام کر چکے ہیں۔ عمر کی وجہ سے انہیں فوج میں جبری طور پر شامل نہیں کیا جا سکتا۔ اولگا نے بتایا کہ ان کے والد فوج کے حامی ہیں۔ اولگا کے مطابق، ''گزشتہ بیس سال سے جاری پروپیگنڈا اس کی وجہ ہے۔ فوج اور پولیس کے ارکان اپنی ہی دنیا میں رہتے ہیں۔ جب جنگ شروع ہوئی تو ہمارا خاندان بٹ گیا۔ میرے والدکا پورا خاندان متاثر ہوا۔ ان کے گھر تباہ ہو گئے۔‘‘

اولگا نے بتایا کہ انہوں نے چوبیس فروری کو اپنی ایک انسٹاگرام پوسٹ میں جنگ کے خلاف لکھا۔ اس کے چالیس منٹ کے اندر اندر ان کے سابقہ شوہر اور کو ملکی سکیورٹی سروس سے کال موصول ہوئی اور ایک گھنٹے بعد اولگا کے والد کو بھی کال کی گئی۔ ''دونوں کو کہا گیا کہ میں خاموش رہوں، دوسری صورت میں مجھے نوکری سے برخاستگی سمیت مسائل کا سامنا ہو گا۔‘‘

ہر کوئی ایک دوسرے کی مدد کو تیار ہے، آرٹیوم

آرٹیوم جرمنی میں ان رضاکاروں میں شامل ہیں، جنہوں نے ایسے افراد کی تعلیم یا نوکری کے لیے دستاوزات تیار کرنے کے لیے خود کو پیش کیا۔ چوبیس فروری کو ان کی ٹیم نے طے کیا کہ وہ یوکرینی شہریوں کو مفت مشورے فراہم کریں گے جب کہ صدر پوٹن کی جانب سے جبری فوجی خدمات کے اطلاق پر یہ سروس روسی شہریوں کے لیے بھی بڑھا دی گئی۔

آرٹیوم اکیس ستمبر سے اب تک درجنوں روسی شہریوں کو مدد فراہم کر چکے ہیں۔ ''ابتدا میں کم روزانہ سولہ سولہ گھنٹے کام کرتے تھے۔ کبھی کبھی اس سے بھی زیادہ۔ ہم ان لوگوں کی کہانیاں سنتے تھے۔ یہ ہمیں بتاتے تھے کہ کس طرح کی جہنم سے یہ گزرے ہیں۔ ایسے روسی شہریوں کی اوسط عمر ساڑھے اٹھائیس برس تھی۔ سب سے نوجوان سترہ سال کا تھا اور سب سے معمر چون سال کا۔ ان میں سے نصف افراد ڈاکٹرز تھے، جنہیں فوری طور پر طلب کیا گیا تھا۔

''جرمنی میں اس وقتروسی شہریوں کی ملک بدری پر پابندی عائد ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ کوئی بھی روسی شہری جو جرمنی پہنچ کر سیاسی پناہ کی درخواست دے گا، اسے واپس نہیں بھیجا جائے گا۔‘‘

ع ت، ک م ( آئلا نووو پشینیا)