جدیدیت اور شائستگی سے مزین مسلم فیشن ملبوسات
مسلم خواتین کے لیے فیشن مسحور کن ہونے کے ساتھ متنازعہ بھی ثابت ہو سکتا ہے۔ مسلمانوں کی اکثریت والے ممالک میں خواتین کے لیے ماڈیسٹ فیشن کی مانگ بڑھ رہی ہے۔ یورپی ڈیزائنرز اس شعبے میں اپنے قدم جمانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
کیٹ واک میں یورپی اور سعودی تعاون
ریاض میں واقع بیلجیم سفارتخانے میں سعودی شہزادی صفیہ حسین اور بیلجیم کی فیشن ڈیزائنر کرستوف بیوفیس اپنی تازہ کلیکشن پیش کر رہی ہیں۔ یہ کلیکشن ماڈیسٹ فیشن یعنی جدت اور شائستگی پر مبنی ہے۔ یہ ایسا پہلا موقع ہے جب سعودی عرب کے فیشن شو میں مرد اور خواتین کو ایک ساتھ شرکت کی اجازت دی گئی ہے۔
گرویدہ بنانے والے ملبوسات
فیشن سادہ لیکن پرکشش ہونا چاہیے۔ بیوفیس اور صفیہ نے سعودی شاہی خاندان کے سخت ڈریس کوڈ کے معیار پر پورا اترنے کے لیے اس بات کا خاص خیال رکھا۔ مگر اس فیشن شو میں شرکت کرنے والے زیادہ تر افراد مغربی ملبوسات زیب تن کیے ہوئے تھے۔
ریاض میں دھیمے رنگوں کے ملبوسات
’خالقی شِک‘ نامی اس کلیکشن میں شوخ رنگوں اور بڑے نقش و نگار کا استعمال کم کیا گیا۔ پھیکے یا ہلکے رنگوں کے جبہ نما لباس روایتی عربی ملبوسات کی شان خیال کیے جاتے ہیں۔
عربی لباس مغربی لوازمات
اس ماڈل نے سیاہ رنگ کے خوبصورت لانگ ڈریس پر سفید کاؤ بوائے ہیٹ پہنی ہے۔ یہ انداز مشرقی اور مغربی ثقافت کا عمدہ امتزاج نظر آتا ہے۔
دبئی میں فیشن کی رنگین دنیا
سن 2017 کے دوران دبئی میں رنگارنگ ماڈیسٹ فیشن ویک کا انعقاد کیا گیا تھا۔ یہ ماڈل ترکی کے ’مسلمہ ویئر‘ نامی ڈیزائنر لیبل کا تیار کردہ لباس پیش کر رہی ہیں۔
مسلمہ ویئر کے دلکش ملبوسات
نوجوان مسلم خواتین کے مزاج اور پسند کو مدنظر رکھتے ہوئے مسلمہ ویئر کمپنی ایسے رنگارنگ نقش ونگار سے بھرے ملبوسات تیار کرتی ہے۔ انسٹاگرام پر اس لیبل کے پیج کے چالیس ہزار فالوورز ہیں۔
ماڈیسٹ فیشن کی ٹاپ ماڈل
مغربی ممالک سے تعلق رکھنے والی ٹاپ ماڈلز بھی ماڈیسٹ فیشن شو کی ریمپ پر جلوہ نما ہوتی ہیں۔ امریکا سے تعلق رکھنے والی حلیمہ عادن ترک ڈیزائنر راویت بغرباگلی کے نئے ملبوسات کی نمائش کر رہی ہیں۔
ماڈیسٹ فیشن، سادہ لیکن متنازعہ
سیکولر اور قدامت پسند حلقوں کی جانب سے ماڈیسٹ فیشن پر تنقید کی جاتی ہے۔ صومالوی نژاد امریکی ماڈل حلیمہ عادن فیشن صنعت میں بطور ٹاپ ماڈل کام کرتی تھیں۔ لیکن سن 2020 میں انہوں نےیہ پیشہ چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا کیونکہ انہیں لگتا تھا کہ ان کے عقیدے کا احترام نہیں کیا جاتا۔