1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرم و سزا کی مسلسل بدلتی ہوئی حدود، سعودی باشندے پریشان

21 اپریل 2019

سعودی عرب کے دو شہری اگر کسی موضوع پر اظہار رائے کریں، تو ایک کو سزا ہو جاتی ہے اور دوسرا بری۔ اس قدامت پسند عرب بادشاہت میں قانونی اور غیر قانونی اور جرم و سزا کی مسلسل بدلتی ہوئی حدود پر عام شہری شدید پریشان ہیں۔

https://p.dw.com/p/3HBGO
Saudi Arabien Quality of Life Programm
تصویر: Getty Images/F. Nureldine

سعودی دارالحکومت ریاض سے اتوار اکیس اپریل کو ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف ہی کی رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ خلیج کی اس عرب ریاست میں کئی شعبوں میں سرکاری قوانین اتنی تیزی سے بدل رہے ہیں اور کسی بھی قانون کی مختلف واقعات میں تشریح اتنی متنوع ہوتی ہے کہ کچھ بھی یقین سے کہنا ممکن نہیں رہا۔

اے ایف پی نے اس موضوع پر اپنے ایک تفصیلی جائزے میں لکھا ہے کہ سعودی عرب میں قانوناﹰ کس بات کی اجازت ہے او کس بات کی نہیں، اس بارے میں مسلسل دائیں بائیں سرکتی ہوئی سرخ لکیریں اب عام سعودی باشندوں کے لیے کافی سر درد اور بے چینی کی وجہ بنتی جا رہی ہیں۔

جنس، مذہب اور سیاست پر اظہار خیال کی مثالیں ہی لے لیں۔ یہ شعبے عام طور پر سعودی عوام کے لیے آزادی اظہار کے حوالے سے بڑی حد تک ممنوعہ علاقے سمجھے جاتے ہیں۔ اے ایف پی کے مطابق سعودی عرب میں اگر کسی شہری کو خود کو ہر قسم کی مشکل سے دور رکھنا ہو، تو اس کے لیے ایسے موضوعات کا احاطہ کرنے والے مسلمہ لیکن غیر تحریری سماجی ضابطوں کا احترام لازمی سمجھا جاتا ہے۔

غیر واضح ہوتی جا رہی سرخ لکیریں

تاہم جس رفتار سے یہ عرب ریاست سماجی اصلاحات کے عمل سے گزر رہی ہے، اور جس طرح وہاں قوم پسندی جڑیں پکڑ رہی ہے، اس میں عام لوگوں کے لیے قانونی اور غیر قانونی کے درمیان سرخ لکیر پر مسلسل نظر رکھنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔

سعودی عرب میں جرم و سزا کے درمیان تفریق کی غیر واضح ہوتی جا رہی لکیروں کو سمجھنے کے لیے چند مثالیں ضروری ہیں۔ اسی مہینے جدہ میں ایک عدالت نے ایک ایسے سعودی شہری کو بری کر دیا، جس پر الزام تھا کہ اس نے سنیپ چیٹ نامی سوشل میڈیا میسجنگ سروس کے ذریعے مبینہ طور پر سعودی حکمرانوں کی تذلیل کی تھی۔ اس ملزم کے، جس کا ملکی میڈیا نے نام ظاہر نہیں کیا، بری کر دیے جانے کی خبر ایک حکومت نواز اخبار نے جلی سرخی کے ساتھ شائع کی اور لکھا، ’’آزادی اظہار کی ضمانت دے دی گئی ہے۔‘‘

دوسری طرف اسی آزادی کا حق اس سعودی شہری اور ماہر تعلیم کو دینے سے انکار کر دیا گیا، جس نے اپنی ان ہم وطن خواتین کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا تھا، جنہیں حکومت نے گزشتہ ماہ گرفتار کر لیا تھا۔ اس ماہر تعلیم نے ان مقید سعودی خواتین کے ساتھ یکجہتی کا اظہار دارالحکومت ریاض میں منعقدہ ایک کتاب میلے کے دوران کیا تھا۔

ضابطہ ایک، اطلاق مختلف

اس کے علاوہ جدہ میں ابھی حال ہی میں ایک ایسے کیفے کو بند کر دیا گیا، جہاں حکام کے مطابق مردوں اور خواتین مہمانوں کو ایک دوسرے سے الگ رکھنے کے ضابطے کا احترام نہیں کیا جا رہا تھا۔ لیکن اس کیفے کی بندش ایک ایسے وقت پر عمل میں آئی، جب اسی طرح کی کئی دوسری عوامی جگہوں پر ان کے مالکان مردوں اور عورتوں کے آپس میں مل بیٹھنے کی حوصلہ افزائی کرتے دکھائی دے رہے تھے۔

مزید یہ کہ گزشتہ برس سعودی عرب میں ایک ہوٹل کے ایک ملازم کو اس لیے گرفتار کر لیا گیا تھا کہ وہ بظاہر اپنی ایک خاتون ساتھی کارکن کے ساتھ ایک ویڈیو میں ناشتہ کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا تھا۔ اس مشترکہ ناشتے کی ویڈیو کو حکام نے ’نامناسب‘ قرار دیا تھا۔

’سارا نظام ہی تضادات سے بھرا ہوا‘

دنیا میں تیل برآمد کرنے والے اس سب سے بڑے ملک میں اتنے زیادہ تضادات کیوں پائے جاتے ہیں، اس بارے میں ایک سعودی سول انجینیئر نوح الغامدی نے کہا، ’’سارا نظام ہی تضادات سے بھرا ہوا ہے۔ اس کی اپنی کوئی واضح اور حتمی شکل ہے ہی نہیں۔ نتیجہ یہ کہ ہم یہ جانتے ہی نہیں کہ کب کیا کرنا غلط اور قانون کے منافی ہے اور کب کیا کرنا درست اور قانون کے مطابق۔‘‘

اے ایف پی نے لکھا ہے کہ سعودی عرب میں یہ صورت حال اس حوالے سے عوامی سطح پر پوچھے جانے والے سوالات کا باعث بھی بن رہی ہے کہ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان ملک میں جو وسیع تر اصلاحات متعارف کرا رہے ہیں، وہ کس حد تک دیرپا، سب کے لیے ایک سی اور ٹھوس شکل و صورت کی حامل ہوں گی کہ حکمرانوں کی سوچ کے مطابق وہ اس ملک کو ایک لبرل ریاست کے طور پر اکیسویں صدی کے اگلے برسوں تک لے جا سکیں۔

م م / ع ت / اے ایف پی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں