جرمن اتحاد: گورباچوف کامیاب رہے یا ناکام؟
2 اکتوبر 2020میخائل گورباچوف سابقہ کمیونسٹ سوویت یونین کے آخری حکمران تھے۔ ان کے دور اقتدار میں خاص طور پر یورپ اور وسطی ایشیا میں پیدا ہونے والی جغرافیائی تبدیلیوں کے تناظر میں اور ملک کے اندر لائی جانے والی سماجی و معاشی و حکومتی انتظامی تبدیلیوں پر انہیں عمومی طور پر شدید تنقید کا سامنا رہتا ہے۔ ان وسیع تبدیلیوں پر آج بھی ان کے کردار پر بحث و تمحیص کا سلسلہ جاری ہے۔
گوربا چوف پر تنقید کیوں؟
میخائل گورباچوف پر سب سے بڑا تنقیدی نکتہ یہ ہے کہ گورباچوف نے معاہدے پر دستخط کرنے پر برلن حکومت سے بہت کم رقم حاصل لی تھی۔ اسی طرح وہ مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کی اپنے ملک کی مشرقی سرحدوں کی جانب توسیع کو روکنے میں بھی ناکام رہے۔
'ٹو پلس فور‘ معاہدہ
بارہ ستمبر سن 1990 کو میخائل گورباچوف اور جرمن چانسلر ہیلمُوٹ کوہل کی رضامندی سے ماسکو میں ایک 'ٹو پلس فور‘ معاہدے پر اس وقت کے مشرقی و مغربی جرمنی کے وزرائے خارجہ نے دستخط کیے۔ اس معاہدے کی توثیق دوسری عالمی جنگ کے چار فتح مند ممالک یعنی سابقہ سوویت یونین، برطانیہ، امریکا اور فرانس نے بھی کی۔ اس سات صفحاتی دستاویز کو جرمنی سے متعلق حل طلب معاملات کا حتمی معاہدہ قرار دیا گیا۔
معاہدے کی تفصیلات
اسی معاہدے کی روشنی میں جرمنی کی دوسری عالمی جنگ میں شکست کے بعد لائی گئی تقریباً چار دہائیوں پر محیط تقسیم اپنے منطقی انجام تک پہنچی۔ معاہدے میں نیٹو میں جرمنی کی رکنیت اور سرحدی معاملات کو بھی واضح کرنے کے ساتھ ساتھ جرمنی کی مکمل جغرافیائی حاکمیت کو بحال کر دیا گیا۔ متحدہ جرمن ریاست کی سکیورٹی کی بھی بحالی ہو گئی۔ اسی معاہدے کی روشنی میں سابقہ مشرقی جرمنی میں متعین روسی افواج کی واپسی کے عمل کو بھی طے کیا گیا۔ یہ مذاکرات مئی سے ستمبر 1990ء تک جاری رہے، حالانکہ نومبر سن 1989 میں دیوار برلن کے انہدام کے فوری بعد ابتدائی بات چیت ہوئی تھی۔
ماسکو کے نقطہ نظر میں تبدیلی
1990ء کے آغاز میں ماسکو کا نقطہ نظر تبدیل ہو گیا تھا۔ میخائل گورباچوف نے اپنی ایک یادداشت میں لکھا، '' ایک داخلی اجلاس میں اس پر اتفاق تھا کہجرمنی کے اتحاد کو روکنا ناممکن ہے۔ اس موقع پر یہ فیصلہ کیا گیا کہ چاروں فاتح ممالک اور جرمنی کے دونوں حصوں کے مابین بات چیت کے سلسلے کو آگے بڑھایا جائے اور سوویت دستوں کے انخلاء کے امکانات کو دیکھا جائے۔‘‘
پیش رفت
اس ضمن میں جرمن چانسلر ہیلموٹ کوہل کے ساتھ ہونے والی بات چیت میں ایک اہم پیش رفت دس فروری سن 1990 کو سامنے آئی۔ کوہل نے اپنی ڈائری مئیں لکھا ہے ،''گورباچوف نے منقسم جرمنی کے رہنماؤں اور دوسری عالمی جنگ کی فاتح چار اقوام کے درمیان بات چیت شروع کرنے کی حمایت کی۔گورباچوف نے منقسم جرمن ریاستوں کے داخلی معاملات کو حل کرنے پر بھی رضامندی دی تھی۔‘‘ اس موقع پر سابقہ سوویت یونین کے لیڈر پر واضح کیا گیا کہ منقسم جرمن ریاستوں کی تقسیم کا معاملہ فاتح قوتوں سے تعلق نہیں رکھتا اور انہیں اپنا مستقبل خود سے طے کرنے کا حق ہے۔
گورباچوف کے ناقدین کا کہنا ہے کہ جرمن اتحاد کے معاہدے سے قبل انہیں جرمن علاقوں میں متعین امریکی و برطانوی افواج کے انخلا کا مطالبہ کرنا چاہیے تھا۔ اسی طرح امریکی جوہری ہتھیاروں کی واپس امریکا منتقلی بھی اہم معاملہ تھا اور سوویت رہنما اس پر بھی خاموش رہے۔ جرمن معاملے کو حل کرنے کے سلسلے میں ناقدین کا کہنا ہے کہ مشکلات کی شکار روسی اقتصادیات کی بحالی کے لیے گورباچوف کم رقم پر راضی ہو گئے تھے، تب پانچ بلین ڈوئچ مارک (موجودہ تقریباً ڈھائی بلین یورو) دیے گئے تھے۔ اس تناظر میں گورباچوف اور کوہل کے درمیان ابتدائی مذاکرات میں عدم اطمینان بھی دیکھا گیا تھا۔
رومان گونچارینکو (ع ح، ع ا)