جرمن انتخابات: جماعتوں کے مابین ایک مرتبہ پھر معرکہ آرائی
24 ستمبر 2017اینس پول لکھتی ہیں:
جرمنی میں انتخابی نتائج نے ایک واضح پیغام دیا ہے اور وہ یہ کہ اس طرح مزید حکومت نہیں کی جا سکتی۔ ان انتخابات کے دو شکست خوردہ ہیں ایک انگیلا میرکل اور دوسرا سوشل ڈیموکریٹک پارٹی۔ ایس پی ڈی کوتاریخ میں کبھی اتنے کم ووٹ یعنی 20.8 فیصد حاصل نہیں ہوئے۔ چانسلر میرکل کی جماعت سی ڈی یو کو آٹھ فیصد کم ووٹ ملے ہیں۔ اسے پیروں کے نیچے سے زمین سرکنے سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ عام حالات میں ایسے نتیجے پر تو مستعفی ہونے کے بارے میں بھی سوچا جا سکتا ہے۔ تاہم جرمن سوچ کے مطابق یہ عام حالات نہیں ہیں۔ کیونکہ اب مسلم اور مہاجر مخالف جماعت اے ایف ڈی تیرہ فیصد سے زائد ووٹ لے کر پارلیمان میں پہنچ چکی ہے۔ وفاقی جمہوریہ جرمنی کے قیام کے بعد پہلی مرتبہ کوئی عوامیت پسند جماعت پارلیمان تک پہنچنے میں کامیاب ہوئی ہے۔
ملک تبدیل ہو گیا ہے
ایک تاریخی موڑ۔ اتوار کو ہونے والے انتخابات کے بعد جرمنی کچھ بدل بھی سکتا ہے۔ یہ کوئی بہت اچھی بات نہیں ہے اور نہ کوئی تباہ کن بات۔ یہ ایک چیلنج ہے۔ جرمنی اس چیلنج کو حل کرنے کی خصوصیات رکھتا ہے۔ یہ پارلیمان کے لیے بھی اچھا ہے کیونکہ اب وہاں بھی صحت مند بحث و مباحثہ ہو سکے گا۔ اب کوئی بھی چانسلر حزب اختلاف کی عدم موجودگی کی وجہ سے حد سے زیادہ طاقتور نہیں ہو سکے گا۔
یہ بھی اتوار کی شام کا ایک پیغام ہے۔
وفاق کو اس بات کا خیال رکھنا ہو گا کہ جمہوری جماعتیں اے ایف ڈی کی ولولہ انگیزی سے کہیں جمہوری راستے سے ہٹ نہ جائیں۔ انہیں لازمی طور پر عوامیت پسندانہ سوچ کے خلاف مزاحمت کرتے ہوئے موجودہ مسائل کا حقیقی حل تلاش کرنے کی کوشش کرنا ہو گی۔ انہیں اس معاملے پر بھی سنجیدگی سے سوچنا ہو گا کہ عوام کی ایک معقول تعداد اس خوف میں مبتلا ہے کہ بہت سے مہاجرین کس طرح اس ملک کو تبدیل کر سکتے ہیں۔ جرمنی کو مسائل پر اپنی بحث و مباحثے کی صلاحیت پر بھی غور کرنا ہو گا۔ خوف کو ختم کرنا اور سیاست کو مضبوط کرنا ہو گا۔
یہ بھی اس انتخابات کا ایک پیغام ہے۔
ایس پی ڈی حزب اختلاف کا کردار ادا کرے گی
اس انتخابی نتیجے کے بعد ایک بہت بڑا مسئلہ حکومت سازی ہے۔ یہ انتہائی مناسب فیصلہ تھا کہ سوشل ڈیموکریٹک پارٹی نے واضح طور پر کہہ دیا کہ وہ حزب اختلاف کا کردار ادا کرے گی۔ اس طرح وہ خود کو ایک نئے انداز سے منظم کرتے ہوئے مستقبل کے نئے امکانات تلاش کر پائے گی۔ ساتھ ہی اس طرح عوامیت پسند جماعت اے ایف ڈی پارلیمان میں سب سے بڑی اپوزیشن جماعت بھی نہیں بن سکے گی۔
انگیلا میرکل انتہائی بوجھل قدموں کے ساتھ حکومت سازی کے لیے پیچیدہ مذاکرات کا آغاز کریں گے۔ ان کے کندھوں پر یہ بوجھ بھی ہو گا کہ ان کے اپنے دوستوں اور پارٹی کے اندر بھی بہت سے لوگ مہاجرین سے متعلق ان کی پالیسی کو اس تباہ کن نتیجے کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔ تاہم دوسری جانب پوری دنیا کو امید ہے کہ میرکل اس نتیجہ کے بعد بھی مغربی دنیا کی ایک مضبوط سیاسی سربراہ ہی رہیں گی اور جرمنی بین الاقوامی اسٹیج پر ایک مستحکم اور ذمہ دار ساتھی ہی رہے گا۔ اور ساتھ ہی وہ ایک آزاد اور جمہوری ملک بھی رہے گا۔
جرمنی کے بنیادی قانون میں بھی ایک ایسی شق موجود ہے، جس پر اے ایف ڈی کو بھی عمل کرنا ہو گا اور یہ وہ کہ ’’انسانی وقار کی کسی بھی حالت میں نفی نہیں کی جا سکتی-‘‘